logo-img
رازداری اور پالیسی
Muhammad Hassan ( 20 سنة ) - پاکستان
2 سال قبل

مو لا علی دور خلافت میں

کیا مولا علی علیہ السلام نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی بیعت کی تھا ؟


یہ بات مخفی نہیں ہونی چاہیے کہ شیعہ امامیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے لیے بلا فصل امامت و خلافت کے قائل ہیں ،اور کثیر ادلہ کے مطابق وہ تمام صحابہ سے افضل ہیں جیسا کہ آیہ ولایت ہے جو کہ آپ علیہ السلام کی جانب سے انگوٹھی کو صدقہ کرنے کے وقت نازل ہوئی تھی ﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ﴾ (تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔المائدة / 55 )اور اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں جو امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں ،اور سنت مبارکہ میں قطعی ادلہ بھی بہت سی موجود ہیں جیسا کہ حدیث غدیر ہے جو کہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور حدیث طیر ہے (اللهم ائتني بأحب خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير:اے پروردگار ! میرے پاس اپنی سب سے محبوب ترین مخلوق کو بھیج کہ وہ میرے ساتھ اس پرندے میں سے تناول کرے)چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام تشریف لائے ،اور ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب ترین ہی اس کے ہاں سب سے زیادہ ثواب رکھنے والا ہے ،اور جو سب سے زیادہ ثواب کھنے والا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے اعمال زیادہ باشرف اور کثرت کے ساتھ اللہ کی عبادت پر مشتمل ہیں ،اور یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ تمام مخلوق پر فضیلت رکھتےہیں ۔ شیعہ روایات اور شیعہ علماﺀ کی صحیح السند روایات کے مطابق مولا علی علیہ السلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی ! مرحوم طبرسی نے «ابان بن تغلب» سے نقل کیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ، کی وفات کے بعد کی سیاسی اور فکری حالات کو بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے اپنے ساتھیوں کے اس سلسلے کے سوال کے جواب کو یوں نقل کیا : ( ... مزید پڑھ اللہ کی قسم اگر ایسا کرتے تو جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا جبکہ تم لوگ تعداد میں کھانے میں نمک کے برابر تھے اور پائیداری کے لحاظ سے آنکھوں میں سرمہ کی مانند تھے ،اللہ کی قسم اگر تم لوگ ایسا کرتے تو یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑتے اور ننگی تلوار لے کر مجھ سے جنگ کرتے اور مجھ سے کہتے کہ میں یا بیعت کروں یا مرنے کے لئے تیار ہوجاؤں،ایسے میں تسلیم ہونے کے علاوہ میرے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت کے مطابق انجام پایا۔(طبرسى، احمد بن على، الاحتجاج على اهل اللجاج، ج‏1 ؛ ص75، ) کیونکہ رحلت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب یہ امت میرے بعد آپ کو دھوکہ دے گی اور آپ کے بارے میں میری نصیحتوں کی رعایت نہیں کرئے گی یہ جان لیں آپ کی نسبت مجھ سے وہی ہے جو جناب ہارون کو موسی علیہ السلام سے تھی۔،میرے بعد ہدایت یافتہ گروہ جناب ہارون اور ان کے شیعوں کی طرح ہے اور گمراہی والا گروہ اور اس کی پیروی کرنے والوں کی مانند ہے ۔ میں نے عرض کیا : اس دن میں کیا کروں؟آپ نے فرمایا:اگر مدد کرنے والے ملے تو جہاد کرو اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ایسے میں ہاتھ کھینچے رکھو اپنے خون کی حفاظت کرو اور مجھ سے مظلومانہ حالت میں ملاقات کرو . شیخ مفید نے (الفصول المختارة) میں واضح طور پر فرمایا : و المحققّون من اهل الامۃ يقولون: لم يبايع ساعۃ قطّ.شیعہ محقق علماﺀ کا یہ نظریہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی ۔(مفيد، محمد بن محمد، الفصول المختارة،ص 56،1جلد1 ) اہل سقیفہ نے امیر المومنین علیہ السلام پرامت کے اتحاد کو ختم کرنے کا الزام لگایا اور انہیں دھمکی دی گئی ۔اہل سنت کے بڑے عالم بیہقی نے نقل کیا ہے : جس وقت ابوبکر ممبر پر گیا اور ادھر ادھر دیکھا لیکن حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیکھا ! لوگوں سے پوچھا تو انصار کی ایک جماعت وہاں سے اٹھی اور حضرت علی علیہ السلام کو مسجد لے کر آئے۔ ابوبکر نے ان کی طرف رخ کر کے کہا : اے پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ) کے چچا کے بیٹے ! کیا مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہو ؟(بيهقی، احمد بن الحسين بن علی بن موسى ابو بكر، سنن البيهقی الكبرى،ج8، ص 143 1،جلد10) خلیفہ اول کا یہ جملہ «أردت أن تشقّ عصا المسلمين» ایک قسم کے قتل کی دھمکی تھی؛ کیونکہ اہل سنت نے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ سے یہ روایت نقل کی ہے : اگر گوئی امت کے اتحاد کو توڑے اور امت میں اختلاف ایجاد کرے تو اس کو قتل کرو ،میں اس حکم میں کسی کے لئے بھی چھوٹ نہیں دیتا ہوں۔ (عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر أبو الفضل، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، ج4، ص 199) لہذا ابوبکر کی طرف سے اتحاد توڑنے کا الزام در حقیقت اس حکم کو جاری کرنے کا آپ کو مستحق سمجھنا تھا ۔ اب اگر امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت ہی نہ ہوتی تو انہیں مسجد میں لانے کی ضرورت کیا تھی اور ان پر مسلمانوں کے اتحاد توڑنے کا الزام لگانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ مؤسسة المصطفى للارشاد والتوعية الدينية

2