حبیب ابن مظاہر، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے شمشر زنی کر رہے تھے۔ انھوں نے 62 اشقیاء کو ہلاک کر ڈالا اور اسی اثناء میں بدیل بن مریم عقفانی نامی شقی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی پیشانی کو تلوار کا نشانہ بنایا اور دوسرے تمیمی شخص نے نیزے سے حملہ کیا حتی کہ حبیب زین سے زمین پر آگرے، ان کی سفید داڑھی ان کے سر سے جاری خون سے خضاب ہوئی۔ بعد ازاں بدیل بن مریم نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔[1] بروایت دیگر، تمیمی[2] شخص بدیل بن مریم نے حبیب پر تلوار کا وار کیا اور دوسرے تمیمی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ زمین پر آ گرے اور جب اٹھنا چاہا تو حصین بن نمیر نے ان کے سر کو تلوار سے زخمی کیا اور ابن صریم نے گھوڑے سے اتر کر ان کا سر تن سے جدا کیا۔[3] اسی اثناء میں امام حسین (علیہ السلام) حبیب کی بالین پر پہنچے اور فرمایا: عندالله احتسب نفسي وحماة اصحابي۔ یعنی: میں اپنی اور اپنے حامی اصحاب کی پاداش کی توقع خداوند متعال سے رکھتا ہوں۔[4] اور اس کے بعد مسلسل اس آیت کریمہ "إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ (ترجمہ: بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے)؛[5] کی تلاوت کرتے رہے۔[6] بعض مقاتل میں ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لله درك يا حبيب، لقد كنت فاضلا تختم القرآن في ليلة واحدة"۔، (ترجمہ: آفرین ہو تم پر اے حبیب! تم ایک فاضل انسان تھے اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے)۔[7] حبیب بن مظاہر کا ایک کم سن فرزند قاسم تھا جس نے بالغ ہوکر اپنے والد کے قاتل بدیل بن مریم کو ہلاک کردیا۔[8]
[1]شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص124
[2]موسوعة کلمات الامام الحسينؑ، ص446
[3]ابن اثیر، الکامل في التاريخ، ج2، ص567
[4]طبری، تاريخ الامم و الملوک، ج5 ص439-440۔ خوارزمي، مقتل الحسين عليہ السلام، ج2، ص192۔ ابن اثیر، الکامل في التاريخ، ج2، ص567۔ ابن اثیر، البدايہ و النهايہ، ج8، ص198۔ بحار الانوار، ج45، ص27۔ البحرانی، عوالم العلوم، ج17، ص27۔ اعيان الشيعہ، ج1، ص206۔ ابو مخنف، وقعة الطف، ص230-231۔ موسوعة کلمات الامام الحسين، ص446
[5]سوره بقره، آيه 156
[6]مقتل الحسين مقرم، ص301
[7]موسوعة کلمات الامام الحسين، ص446، ص231۔ مقرم، مقتل الحسين، ص301 ينابيع المودہ، ج3، ص71
[8]سماوی، ابصارالعین فی انصارالحسین، ص127۔