logo-img
رازداری اور پالیسی
( 26 سنة ) - عراق
2 سال قبل

فقہ جعفری

شیعہ کو فقہ جعفری کیوں کہا جاتا ہے؟


"امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے تذکرے میں ذہن فوری فقہ جعفری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تدوین فقہ کی کوشش امام صادق (علیہ السلام) کے حوالے کے بغیر نا ممکن سمجھی جاتی ہے۔ مکتب تشیع کی فقہ یعنی فقہ جعفری تو اپنی وجہ تسمیہ ہی سے امام صادق (علیہ السلام) کی مرہون منت اور احسان مندی ظاہر کرتی ہے۔ عربی میں فقہ کے لغوی معنی علم و فہم ہے اور فقیہ کے معنی عالم ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اصطلاحاً اس سے دینی مسائل اور استدلالی علم مراد لیا جاتا ہے۔ جس میں احکام شریعہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ احکام واجب، مستحب، حرام، مکروہ، اور مباح کے محور کے اطراف اپنے میں سبب، شرط، مانع، صحت بطلان، رخصت اور عزیمت کے پہلو لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تمام فقہی اصطلاحات ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فقہ کی اس مختصر تشریح کے بعد اب تدوین کا مطلب جمع کرنا یا مرتب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم تددوین کی نسبت سے امام جعفرِ صادق (علیہ السلام) کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ نے فقہ محمدیہ کے احکام کو جمع اور مرتب کیا کہ وہ ایک مستقل علم بن گیا۔ اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے چند واضح ادوار نظر آتے ہیں، امام صادق (علیہ السلام) کی علمی برکات کو سمجھنے کے لیے فقہ اسلامی کے تدریجی ارتقاء کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کا سبب پہلا عہد حضرت ختمی مرتبت کی ظاہری رسالت سے 11ھ تک محیط ہے جس میں سوائے چند استثنائی واقعات ( صلح حدیبیہ، حدیث قرطاس ) کے بظاہر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ رحلت رسول کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے فوری بعد سب سے بڑا فقہی اختلاف آنحضرت کی جانشینی کے سلسلہ میں نمودار ہوا اس دور میں جو پہلے تین خلفاء کے زمانہ یعنی تقریباً 24 سال (35 ھ) تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن اور سنت کے علاوہ فقہ کے ماخذ میں قیاس اور اجماع کا اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ ابوبکر اور عمر نے روایت حدیث پر کڑی پابندی لگا دی، جس کی وجہ سے قیاس پر زیادہ انحصار ہوا۔ تیسرا دور 35 ھ تا 40 ھ میں خلافت امیر المؤمنین کے دوران قرآن و سنت ہی ماخذ فقہ رہے اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ اثنائے عشری شیعہ عقیدہ کی رو سے اسلام کی اصل تشریح وہی ہے جو وفات پیغمبر کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) سے لے کر بارہویں امامت تک بلا فصل جاتی ہے۔ بالآخر ہر حکم کا منبع قول معصوم ہوتا ہے اور جو کچھ راوی کی زبان پر آئے گا وہ عصمت فکر اور معیار صداقت پر پورا اتریگا۔ حضرت علی (علیہ السلام) سے امام حسین (علیہ السلام) تک یہ وصل قول انتہائی بھر پور انداز میں عیاں ہے۔ چوتھا دور 60 ھ تا 133 ھ کا ہے، جو بنی امیہ کی خلافت کا زمانہ ہے اس دور میں شہادت امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) ، امام حسن (علیہ السلام) کی ظاہری خلافت سے دستبرداری اور شہادت امام حسین (علیہ السلام)، سانحہ کربلا و مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاراجی کے واقعات دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سلاطین بنی امیہ کس فقہ کے پابند تھے۔ جس میں ان باتوں کی انہیں اجازت تھی۔ عمر بن عبد العزیز کے دور میں البتہ فدک واپس کیا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کس فقہ کے تحت چھینا گیا تھا۔ پانچواں طویل دور 135 ھ سے 260 ھ یعنی 125 سال پر محیط ہے، دور امام صادق (علیہ السلام) کی امامت کے ابتدائی زمانے سے شہادت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے بعد تک پھیلا ہوا ہے، سیاسی اور فکری اعتبار سے تاریخ اسلام کا یہ نہایت اہم دور تھا اس زمانے میں بے شمار تاریخ ساز واقعات اور تحریکات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ بشمول شیعہ فقہی اعتبار سے مختلف مسلکوں میں بٹ گئی۔ اس دور میں روایت حدیث پر کوئی پابندی نہیں تھی اور وقتی مصلحتوں اور حاکمان وقت کی سرپرستی کے نتیجے میں وضع حدیث ایک مشغلہ اور پیشہ بن گیا تھا۔ اس دور میں امام جنبل،امام بخاری،امام مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی کی مسانید کی تدوین ہوئی اب وہ صحابہ اور تابعین بھی نہیں رہے جنہوں نے یہ احادیث سنی تھیں اور اصل اور نقل میں تمیز کر سکتے تھے۔ مزید برآں فتوحات اور اسلامی سلطنت کی توسیع اور بڑھتے ہوئے بیرونی روابط کے نتائج میں ایک نیا خفلشار اسلامی فلسفہ میں ایران، روم اور یونان کے فلسفوں کی آمیزش کی صورت میں نمودار ہو گیا تھا۔ "