logo-img
رازداری اور پالیسی
Haider ( 37 سنة ) - پاکستان
2 ہفتے قبل

دابۃ الارض کے بارے میں مکمل معلومات اور تفصیل

السلام علیکم آغا جان میں دابة الأرض کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں راہنمائی فرما دیں۔


وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ قرآن میں "دابّہ" کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، ان میں سے ایک آیت یہ ہے: فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ... مزید پڑھ (سبأ: 14) پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی۔ جہاں تک سورۂ سبأ کی اس آیت میں دابّۃ الارض کا تعلق ہے (مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ)، تو یہاں مراد "دیمک" ہے جو لکڑی وغیرہ کھاتی ہے۔ اور سورۂ نمل کی اس آیت میں فرمایا گیا: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُم۔ (النمل: 82) اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت آخرالزمان میں رجعت کی حقیقت کی طرف اشارہ ہے، اور یہ کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دیگر آئمہ اطہار علیہم السلام دوبارہ اس دنیا میں پلٹائے جائیں گے۔ تفسیرِ علی بن ابراہیم میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس پہنچے اس وقت آپ مسجد میں سوئے ہوئے تھے اور ریت جمع کرکے اس پر سر رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپ کو حرکت دی اور فرمایا: اُٹھو اے دابّۃ اللہ۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم! یہ خطاب آپ ہی کے ساتھ خاص ہے اور آپ ہی وہ دابّہ ہیں جسے قرآن میں ذکر کیا گیا ہے: وَ إِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ۔ پھر فرمایا: اے علی! جب آخرالزمان ہوگا تو اللہ تمہیں سب سے بہترین صورت میں ظاہر کرے گا اور تمہارے ساتھ ایک نشان (مِیسَم) ہوگا جس سے تم اپنے دشمنوں کو داغو گے۔ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے کہا: عام لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت (تُكَلِّمُهُم) نہیں بلکہ (تَكْلِمُهُم) ہے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ انہیں جہنم میں کلِم (زخم) نہیں دے گا بلکہ یہ (تُكَلِّمُهُم) یعنی کلام کرنا ہے۔ الکافی میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: مجھے چھ چیزیں دی گئی ہیں۔ بلایا اور منایا (حادثات اور موت کی خبریں)، وصایا (خاص وصیتیں)، فیصلہ کن کلام (فصل الخطاب)، اور میں ہی کَرّات (بار بار پلٹنے والا)، دَولَتوں کا صاحب، عصا اور مِیسَم کا مالک، اور وہی دابّہ ہوں جو لوگوں سے کلام کرے گا۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے عمّار بن یاسر سے کہا: اے ابویقظان! قرآن کی ایک آیت نے میرے دل کو مشوش کر دیا ہے اور مجھے شک میں ڈال دیا ہے۔ عمّار نے پوچھا: کون سی آیت؟ اس نے کہا: اللہ کا فرمان: وَ إِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ۔۔۔ تو یہ دابّہ کون ہے؟ عمّار نے کہا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا، نہ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک تجھے وہ دابّہ نہ دکھا دوں۔ پھر عمّار اس شخص کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس لائے اس وقت آپ کھجور اور مکھن کھا رہے تھے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے نے فرمایا: آؤ ابو الیقظان! اور خود بیٹھ کر کھانے لگے۔ وہ شخص حیران ہوا اور کہا: سبحان اللہ! تم نے قسم کھائی تھی کہ اس وقت تک نہ کچھ کھاؤ گے نہ پیو گے جب تک مجھے دابّہ نہ دکھاؤ گے! عمّار نے کہا: میں نے تجھے دکھا دیا ہے، اگر تیرا فہم کام کرے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب آپ سے دابّہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! اس کی دم نہیں ہوگی لیکن اس کے پاس داڑھی ضرور ہوگی۔ لغت میں "دابّہ" ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمین پر چلتی ہے خواہ انسان ہو یا حیوان۔ آیتِ مبارکہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ دابّہ ایسا ہوگا جس کے پاس عقل، شعور اور فہم ہوگا اور وہ لوگوں سے گفتگو کرے گا۔ چونکہ یہ دابّہ زمین سے ظاہر ہوگا تو لازماً اس سے مراد ایک انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ دوبارہ دنیا میں پلٹائے گا اور یہ اللہ کی نشانیوں اور معجزات میں سے ہے۔ پس اس کا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر منطبق ہونا بعید نہیں۔