اسلام عليكم محترم میرا سوال عقیدہ بدا کے حوالے سے ہے عقیده بدا کیا ہے متکلمین نے اس حوالے سے کافی کچھ لکھا ہے کیا خدا تقدیر میں تبدیلی کرتا ہے؟ رہمنائی فرمائیں جزا ک الله
علیکم السلام و رحمۃ اللہ
"بَدَاء" لغوی اعتبار سے ظاہر ہونے اور پوشیدہ ہونے کے بعد نمایاں ہونے کو کہتے ہیں۔
تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام حوادث (ماضی، حال اور مستقبل) کا علم رکھتا ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں لہٰذا اس کے متعلق یہ تصور کرنا درست نہیں کہ کوئی چیز پہلے اس پر مخفی تھی اور بعد میں ظاہر ہوئی یا وہ کسی چیز کو پہلے نہیں جانتا تھا اور بعد میں جان گیا۔ بلکہ تمام چیزیں، خواہ باریک ہوں یا بڑی، اس کے سامنے ہمیشہ سے حاضر ہیں۔
بعض اوقات بداء کا اطلاق علم میں تغیر کی وجہ سے ارادہ میں تغییر اور عزم میں تبدل واقع ہونے پر بھی ہوتا ہے۔
اہل تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بَداء کے ان سب معانی (چھپے ہوئے امر کا ظاہر ہونا، جہالت کے بعد کسی چیز کا علم حاصل ہونا اور ارادہ و عزم میں تغیر و تبدل واقع ہونا) کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف نسبت دینا محال ہے اور نہ ہی کبھی کسی شیعہ عالم نے اس معنی میں بَداء کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔ کیونکہ اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہو اُس میں تبدیلی واقع ہو، اُس کی مشیّت و ارادہ متبدل ہوں اور اُسے ماضی، حال اور مستقبل کی مکمل خبر نہ ہو (جو کہ اللہ تعالیٰ کے کمالِ علم و قدرت کے منافی ہے)۔
تقدیر کی دو اقسام ہیں
حتْمی تقدیر (تقدیرِ قطعی) جس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔
تقدیر غیر حتمی (معلق )جو دعا، صدقہ، اعمال وغیرہ سے بدل سکتی ہے۔
بداء کا تعلق اس دوسری قسم سے ہے۔
پس لوگوں پر جب کوئی امر مخفی ہوتا ہے اچانک وہ ظاہر ہو جائے تو لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بداء ہوئی ہے جبکہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ خود لوگ اس چیز سے جاہل تھے ان پر یہ چیز مخفی تھی اگر کسی مریض کو ڈاکٹر کہہ دے کہ تو کل مرجائے گا اور ظاہری اسباب سے بھی یہی لگ رہا ہو کہ یہ شخص مر جائے گا اور اگر اس کی طرف سے کوئی صدقہ یا کوئی نیک عمل بجا لائے جس کی وجہ سے موت ٹل جائے تو اس میں لوگوں کو بداء ہوئی ہے جبکہ اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ صدقہ دینے یا نیک عمل بجا لانے کی وجہ سے اس کی موت ٹل جائے گی۔ اس قسم کا عقیدہ رکھنا کسی حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے منافات نہیں رکھتا۔
بدا کا فلسفہ:
اس ميں شک نہيں کہ اگر انسان يہ جان لے کہ تقدير کو بدلنا اس کے اختيار ميں ہے تو وہ ہميشہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے درپے رہے گا، اور زيادہ سے زيادہ ہمت اور کوشش کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا ۔
دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ جس طرح توبہ اور شفاعت انسان کو نااميدی اور مايوسی سے نجات دلاتی ہے اسی طرح بداکا عقيدہ بھی انسان کے اندر نشاط اور شادابی پيدا کرتا ہے، اور انسان کو روشن مستقبل کا اميدوار بناتا ہے،کيونکہ اس عقيدے کی روشنی ميں انسان يہ جان ليتا ہے کہ پروردگار عالم کے حکم سے وہ اپنی تقدير کو بدل سکتا ہے، اور ايک بہتر مستقبل حاصل کر کے اپنی عاقبت سنوار سکتا ہے۔