logo-img
رازداری اور پالیسی
7 ماہ قبل

یا علی (علیہ السلام) مدد کہنے سے مراد

کیوں شیعہ ہمیشہ یا علی کہتے ہیں، اور کیا یہ بات صحیح ہے کہ رسول (صلى الله عليہ و آلہ و سلم) علی علی کی ندا دیتے تھے؟


یا علی (علیہ السلام) کہنے والے کا ارادہ چاہے وہ شیعہ ہو یا کوئی اور فقط دعا اور استغاثہ ہوتا ہے اور یہ شرعی اور لغوی اعتبار سے جائز ہے۔ جہاں تک شرعی پہلو کا تعلق ہے تو مؤمن کو حق ہے کہ روحانی اور مادی لحاظ سے قوی ہر ایک سے مدد طلب کرے اور اس کام میں اس وقت تک کوئی عیب نہیں ہے، جب تک اس استغاثہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو شرعی لحاظ سے حرام یا ممنوع ہو، اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انبیاء نے معجزات قائم کرنے کے لیے قدرتی اسباب سے ہی مدد لی تھی جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی يوسف (عليہ السلام) نے اپنے پدر بزرگوار يعقوب (عليہ السلام) کی آنکھ کے علاج کے لیے اپنی قمیص سے مدد لی تھی اور یہ قصہ معلوم و مشہور ہے اور بالکل واضح طور پر قرآن کریم میں موجود ہے۔ اور وہ مؤمن جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یقیناً امير المؤمنين علی (عليہ السلام) پاکیزہ روحانی قوت کے حامل ہیں اور زندہ ہیں جن کو اللہ کے یہاں رزق حاصل ہے تو پھر ان سے مدد طلب کرنے میں کونسا عیب اور کونسی برائی پائی جاتی ہے۔ کیا آپ، امام (علیہ السلام) کو مشرق و مغرب میں سرگرم ان فرشتوں سے کم مرتبہ سمجھتے ہیں جن فرشتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے، یہ فرشتے انسان کے لیے مختلف اعمال انجام دیتے ہیں، جبکہ انسان نہ تو ان کو دیکھتا ہے اور نہ ہی ان کو سنتا ہے (پھر ان کے وجود اور ان کی طرف سے ان امور کے انجام دیے جانے پر ایمان رکھتا ہے)۔ اس بنا پر علی علیہ السلام سے مدد طلب کرنے والے کی اپنے قول: یا علی (علیہ السلام)، میں مراد یہ معنی ہے یعنی وہ براہ راست امام علی (علیہ السلام) سے مدد طلب کرتا ہے اور آپ (علیہ السلام) سے اس بات کی گذارش کرتا ہے کہ آپ (علیہ السلام) اس کی مدد فرمائیں جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ نے امام علی (علیہ السلام) کو ایسی روحانی قوت عطا فرمائی ہے جو خدا تعالیٰ کے مقرب فرشتوں اور ارواح سے بلند و بڑھ کر ہے چونکہ آپ (علیہ السلام) کا پاکیزہ مقام و مرتبہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے جیسے آپ (علیہ السلام) کا نفسِ نبی (صلى الله عليہ وآلہ وسلم) ہونا آیت مباہلہ میں بیان کیا گیا ہے یا آپ (صلى الله عليہ و آلہ و سلم) کی جانب سے اس بات کو بالکل واضح طور پر بیان کیا جانا کہ امام (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے پاکیزہ نفس کی مانند ہیں – جیسا کہ صحیح احادیثِ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے -، اور آپ (صلى الله عليہ و آلہ و سلم) اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے عظیم ہیں، اس بنا پر امام علیہ السلام کا مرتبہ بھی منزلت اور مقام کے لحاظ سے آپ (صلى الله عليہ و آلہ و سلم)کے مرتبہ کی طرح سے قرار پاتا ہے (کہ آپ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بعد سب سے افضل ہیں)۔ ہاں گفتگو اس مسئلہ میں باقی رہتی ہے کہ عالم روحانیت کے عالم دنیا کے ساتھ اثرات کی کیفیت کیا ہے، تو یہ ایک الگ بحث ہے جس میں اس دنیا سے چلے جانے والے انبیا، شہدا اور صالحین کا اس دنیا کے ساتھ تاثیر اور اثر کا سلسلہ برقرار رہتا ہے اور یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوتا ہے اس بات کو ثابت کرنا ممکن ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہ کبھی یا علی (علیہ السلام) کہنے والے کا مقصد دعا ہوتا ہے، یعنی وہ چاہتا ہے کے کہے: خداوندا! علی (علیہ السلام) کے مقام کا واسطہ اس بات پر میری مدد فرما جو میں چاہتا ہوں،اور شرعی اور لغوی لحاظ سے یہ جائز اور مباح ہے، اور اس کو لغت میں "باب المجاز فی الاسناد" سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اس کے متعلق قرآن کریم میں خبر اور فرمان کے عنوان سے مثالیں موجود ہے۔۔ جہاں تک نبی (صلى الله عليہ و آلہ و سلم) کی جانب سے امام علی (علیہ السلام) کو ندا دیے جانے کا سوال ہے تو یقیناً بحار الانوار ج20 ص 73 میں وارد ہوا ہے کہ نبی (صلى الله عليہ و آلہ و سلم) نے جنگ احد میں ندا فرمائی تھی: "ناد علياً مظهر العجائب، تجده عوناً لك في النوائب" (علی (علیہ السلام) کو بلاؤ جو حیرت انگیر امور کو ظاہر کرنے والا ہیں، تم ان کو اپنے لیے مشکلات و حوادث میں مددگار پاؤگے)، اور یقیناً اس حدیث کو محمد السعيد بن بسيونی زغلول نے "موسوعہ اطراف الحديث النبوی الشريف ج10 ص 3" میں بیان کیا ہے۔

3