ہم اہل بیت (علیہ السلام) سے محبت کرتے ہیں اور ان کو بڑے مرتبہ والا مانتے ہیں، ان پر ہر تشہد میں درود و سلام بھیجتے ہیں، ہم کرسی اور اقتدار کی محبت پر لعنت کرتے ہیں، جو صدیوں سے ہمیشہ مسلسل ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے تھے وہ کفار اور یہودی متحد ہو چکے ہیں اور ہم سابقہ زمانہ کے اقتدار و سلطنت پر لڑ رہے ہیں، تو شیعہ کو شیعہ رہنا چاہیے اور سنّی کو سنّی اور سب مسلمان ہے؟
اہل سنّت اور شیعوں کے درمیان اختلاف سیاسی اختلاف نہیں ہے – جیسا کہ آپ نے خیال کیا ہے – کہ جس کا تعلق اقتدار اور خلافت کی کرسی سے ہو، یہ مسئلہ یعنی دنیوی خلافت اور سلطنت کا مسئلہ یہ ایسی بحث ہے جو تاریخ کے سپرد ہے، اور ابھی اس میں داخل ہونے کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔
بحث تمام کی تمام فقط ایسی بات سے ہے جس کا تعلق مسلمان کی آخرت کے تعین کے حوالے سے ہے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی صحیح حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ "جو اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (اكمال الدين واتمام النعمۃ للصدوق: 409 الباب (38)۔) اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کا یہ فرمان کہ: "جو اس حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (صحيح مسلم 6: 22 كتاب الامارة، باب حكم فرق امر المسلمين) اسی طرح کا معنی رکھنے والی دیگر احادیث بھی ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی طرف سے وارد ہوئی ہیں جو معنی کے اعتبار سے تواتر رکھتی ہیں اور اس بات میں واضح ہیں کہ امامت کا اعتقاد رکھنا اور لازمی طور سے ہر زمانہ میں ایک امام کی بیعت میں ہونا ایک ایسا معاملہ ہے کہ جو ہر مسلمان پر لازم ہے، اور یہ معاملہ مسلمانوں کی گردنوں سے قیامت تک جدا نہیں ہوگا، اور یہ ایسا معنی ہے جو ان احادیث سے بعض اہل سنّت کے محقّق علمانے بھی لیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم کہے کہ یہ تو فقط شیعوں کا عقیدہ اور فقط ان کا اس پر عمل ہے۔
ابن حزم نے "الفصل بین الملل" میں کہا ہے کہ: یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے بالکل وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ امامت واجب ہے اور ایک رات بھی بغیر بیعت کے باقی رہنا حلال نہیں ہے۔ (الفصل بين الملل والاهواء والنحل 4: 102 الكلام فی الامامۃ والمفاضلۃ)
اور ایجی نے "المواقف" میں کہا ہے: نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی وفات کے بعد شروع سے ہی مسلمانوں کا متواتر اجماع ہے کہ کوئی بھی وقت امام سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔(المواقف 3: 575 الموقف السادس، المرصد الرابع، المقصد الاوّل)
اس بنا پر بحث، اے برادرِ عزیز، فقط امامت کے مسئلہ کے متعلق ہے اور جاہلیت کی موت سے بچنے کے لیےہے، آپ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کی موت ہو جاتی ہےاور آپ اللہ کے روبرو محشور ہوتے ہےاور آپ کے زمانہ کے امام کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اور آپ اس موضوع میں کوئی واضح جواب نہیں دے پاتے اور یہ عذر پیش کرتے ہے کہ اس مسئلہ میں تو ہمارے آباء و اجداد بھی جاہل تھے اور اس مسئلہ میں بحث و تحقیق نہیں کرتے تھے، تو کیا آپ کا یہ جواب آپ کو پروردگار عالم کی اس سزا سے بچا لے گا جو سزا اہل جاہلیت کو دی جائے گی، یا یہ کہ اس متواترحدیث کے مطابق پروردگار آپ کی گمراہی پر آپ سے بھی اسی طرح محاسبہ کرے گا جس طرح اہل جاہلیت کا ان کی گمراہی پر محاسبہ کیا جائے گا، چونکہ حدیث کے مطابق تویقینی طور سے ہر زمانہ میں امام کی بیعت ہونا واجب ہے جیسے کہ شیعہ کے علاوہ اہل سنّت علماء اس بات کو بیان کر رہے ہیں، جیسا کہ کچھ پہلے ہی ہم نے بیان کیا؟ تو برادرِ عزیز، اس مسئلہ کا مکمل تعلق مسلمان کی آخرت کے علاوہ کسی بات سے نہیں ہے یعنی امامت کا مسئلہ حل ہو تو اس کی آخرت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ اور ہم اللہ سبحانہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو اُس راستہ پر ثابت قدم رکھے جس راستے سے وہ محبت کرتا ہے اور جس سے وہ راضی ہے کہ یقینا وہ سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔
غور فرمائے: جب ہم کہتے ہیں کہ: اہل سنّت علما امامت کے سلسلہ میں یقیناً بحث تو کرتے ہیں، خاص طور سے ان احادیث میں ذکر شدہ بات کے متعلق کہ جن کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے، تو ہمارا مقصد فقط یہ بتانا ہوتا ہے کہ ان کی بحث فقط نظریہ کی حد تک ہوتی ہے مگر عملی سطح پر تو ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ وہ کہہ سکے کہ اس زمانہ میں فلاں ذات ہیں جس پر لوگ اعتقاد رکھے کہ یہ ان کے زمانہ کا امام ہے، اس کی بیعت ان لوگوں پر واجب ہے اور اس ذات کے حق میں ان لوگوں کی گردن پر اللہ کی طرف سے بیعت ہے، کہ اگر یہ عملی اعتقاد نہ ہوا تو اس اعتقاد سے محروم افراد کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ تو یہ ایسا معاملہ ہے کہ نہ ان کے نزدیک اس کا کوئی خارجی تعین ہے اور نہ ہی کوئی حقیقی جواب؟