logo-img
رازداری اور پالیسی
ایک سال قبل

طہارت کے احکام

وسوسے کا علاج کیا ہے؟


حسب رأي آیت اللہ سيد علی سيستانی

وسوسےکا بہترین علاج یہ ہے کہ ایک طویل مدت تک اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جائےاور جتنے عرصے سے مكلّف اس بیماری کا شکار ہو گا اتنی ہی مدت اس سے بے توجہی برتنی پڑے گی۔ وسوسے میں مبتلا شخص کو متوجہ ہونا چاہیے کہ اگر اس نے اپنے وسوسے کی پرواہ نہ کی اور بالکل اس سےبے توجہ ہو گیا تو خواہ اس کا عمل خلافِ واقع ہی کیوں نہ ہوتب بھی وہ نہ گناہ گار ہوگا اور نہ بروز قیامت اللہ کے عذاب کا شکار ہو گا۔ اس مرض کے شکار آدمی کو وسوسے کے مطابق عمل کرنے کی طرف کھینچنے والا عامل اس کا یہ ڈر ہے کہ کہیں میرا عمل باطل نہ ہو اور کہیں وہ مبتلائے عذاب نہ ہو جائے جبکہ یہ ڈر درست نہیں ہے کیونکہ خواہ انسان کا عمل باطل اور واقعیت کے خلاف ہو تو بھی وسوسے کی مخالفت اور اس کی طرف توجہ نہ دینا کوئی گناہ نہیں اور وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عذر رکھتا ہے، مثلاًجب اس طرح کے انسان کو اپنے بدن کے پاک ہونے کے بارے میں شک ہو اور وہ اسے پاک سمجھے اور وضو کر کے نمازپڑھے جبکہ در حقیقت(عند اللہ) اس کا بدن نجس اور نماز و وضو باطل ہوں تو بھی وہ اس کا جواب دہ نہ ہوگا کیونکہ اس نے اپنے شرعی وظیفے کے مطابق اپنے وسواس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مجتہد کے اس فتویٰ پر عمل کیا ہے جو اس کے لیے حجت تھا۔ اسی طرح اگر مكلّف اپنے مجتہدکے فتویٰ کے مطابق عمل کرے اور درحقیقت (عند اللہ) اس کا یہ عمل خلافِ حقیقت ہو تو بھی اس کی سرزنش اور اسے عذاب نہیں ہوگا، مثلاً اگر مجتہد نے فتویٰ دیا ہو کہ الکُحل پاک ہے اور مكلّف اس فتویٰ کی بنا پر الکحل سے پرہیز نہ کرے اور الکحل سے آلودہ لباس اور بدن کے ساتھ وضو کرکے نماز پڑھے جبکہ درحقیقت الکحل نجس ہو تو بھی بروزِ قیامت اس نجس لباس میں نماز پڑھنے کی وجہ سے اسے عذاب نہیں ہوگا کیونکہ وہ خدا کی بارگاہ میں عذر رکھتا ہو گا اور خدا سے خطاب کرے گا کہ: اے میرے پروردگار ! تو نے حکم دیا تھا کہ اپنے مجتہد کے فتویٰ کے مطابق عمل کرو اورمیرے مرجع تقلید نے الکحل کے پاک ہونے کا فتویٰ دیا تھا لہٰذا میں نے اس سے پرہیز نہیں کیا تو آیا اس کے باوجود میں مستحقِ عذاب ہوں؟ تو یقیناً اسےجواب ملے گا: نہیں، بلکہ تمہارا عذر قابلِ قبول ہے۔ وسوسے کے شکار شخص کی حالت بھی اسی شخص کی طرح ہے کیونکہ تمام مراجع کرام نے معتبر روایات کی بنیادپر فتویٰ دیا ہے کہ وسوسہ کرنے والا شخص اپنے وسوسے کی پرواہ نہ کرے اور جس چیز کے پاک ہونے کے بارے میں اسےشک ہو اُسے پاک سمجھے اور اگر وہ کسی چیز کو نجس سمجھے لیکن عام انسان جو وسوسے میں مبتلا نہیں اس کی نجاست کا علم نہ رکھتےہوں تو وسواسی انسان بھی اپنے یقین کی پرواہ نہ کرے اور اس چیز کو پاک سمجھے۔ پس اگر وسوسے کا شکارشخص اس شرعی فتویٰ پر عمل کرے تو خواہ اس کا عمل خلافِ واقع، نماز باطل، لباس یا بدن نجس یا کھایا ہوا کھانا ناپاک ہو تو بھی وہ پروردگار کی بارگاہ میں عذر رکھتا ہوگا۔ اور اگر شیطان یا شیطانی افکار اسے یوں ستائیں کہ تمہارا وضو اور نماز باطل اورتمہارا بدن نجس ہے تو اسے چاہیے کہ شیطان سے مخاطب ہو کر کہے کہ (تمہارے یہ شیطانی افکار) میرے لیے اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ مہربان اور حکیم خداوند عالم کی بارگاہ میں میرے پاس عذر ہے اور وہ (کریم)مجھ پر عذاب نہیں کرے گا۔ پس خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ وسوسے سے نجات کا بہترین راستہ اسے توجہ نہ دینا،احکام شریعت سے زیادہ سے زیادہ آشنائی اور عام لوگوں کی طرح عمل کرنا ہے۔ اور وسواسی انسان کو چاہیے کہ جس مقدار میں شریعت نے حکم دیا ہے اسی پر اکتفا کرے، اس سےتجاوز نہ کرے اور یہ جان لے کہ وسوسہ شیطان کے جالوں میں سے ایک جال ہے حتیٰ کہ روایاتِ ائمہ معصومین علیہم السلام میں اسے شیطان کی اطاعت و پیروی سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ اس سے چھٹکارے کے لیے قطعی اور مستحکم ارادہ، پروردگار کی توفیق، خدا کی بارگاہ میں دعا اورابواب ہدایت ائمہ معصومینؑ کی مدد کی ضرورت ہے۔ روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں: ’’میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک ایسے شخص کا نام لیا جو وضواور نماز میں وسوسے کا شکار تھا۔ میں نے کہا کہ وہ عقلمند شخص ہے۔ تو امامؑ نے فرمایا: ’’کیسا عقل مند ہے جو شیطان کی اطاعت کرتا ہے!‘‘ تو میں نے سوال کیا: ’’کس طرح شیطان کی اطاعت کرتا ہے؟‘‘ تو امامؑ نے فرمایا: ’’خود اسی سے سوال کرو اور پوچھو کہ یہ حالت کہاں سے آئی اور اس کا سبب کیا ہے تو وہ کہے گا کہ یہ رویہ شیطانی ہے۔(1) (1) وسائل الشیعہ، ج1، ص63، باب 10 مقدمہ العبادات کے ابواب سے ح1۔