اس سوال کے متعلق جواب خود امام حسن نے دیا ہے، اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ہم سے بیان کیا مظفّر بن جعفر بن مظفّر علوی سمرقندیؓ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا: جعفر بن محمّد بن مسعود نے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا : جبرائیل بن احمد نے، انہوں نے موسى بن جعفر بغدادی سے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا : حسن بن محمّد صیرفی نے، انہوں نے حنان بن سدیر سے، انہوں نے اپنے والد سدیر بن حكیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابی سعید عقیصا سے، انہوں نے کہا کہ جب حسن بن علی نے معاویۃ بن ابی سفیان سے صلح کی تو لوگ آپ کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے صلح کرنے پر انتہائی گستاخانہ جسارت کی تو آپ نے فرمایا :افسوس ہے تم پر، میں نے جو کیا تمہیں اس کی سمجھ نہیں ہے ! قسم بخدا میں نے اپنے شیعوں کے لیے وہ بہترین کام انجام دیا ہے جو ان سب سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں تمہارا امام ہوں، میری اطاعت تم پر فرض کی گئی ہے، کیا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا واضح فرمان میرے بارے میں نہیں ہے کہ میں جوانان اہل جنّت کے سرداروں میں سے ایک ہوں ؟ لوگوں نےکہا : یقینا (إكمال الدین وإتمام النعمة للصدوق: 315 - 316 الباب (29).
ہم سے بیان کیا علی بن احمد بن محمّد (رحمہ الله) نے، انہوں نے کہا : ہم سے بیان کیا محمّد بن موسى بن داود الدقّاق نے، انہوں نے کہا : ہم سے بیان کیا حسن بن احمد بن لیث نے، انہوں نے کہا : ہم سے بیان کیا محمّد بن حمید نے، انہوں نے کہا : ہم سے بیان کیا یحی بن ابی بكیر نے، انہوں نے کہا : ہم سے ابو العلا الخفاف نے ابی سعید عقیصا سے روایت کرتے ہوئےبیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حسن بن علی بن ابی طالب علیہما السلام سے عرض کی :یا بن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم! آپ نے کیوں حاکم شام کے ساتھ سمجھوتہ اور مصالحت کی جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ حق آپ کا ہے اس کا نہیں ہے اور حاکم شام گمراہ اور باغی ہے ؟آپ نے فرمایا : یا ابا سعید! کیا میں بلند و بالاذکر کے مالک اللہ کی اس کی مخلوقات پر حجّت نہیں ہوں اور پدر بزرگوار کے بعد لوگوں کا امام نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کی : یقیناً ہیں،آپ نے فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے میرے اور میرے بھائی کے لیے فرمایا تھا کہ : الحسن والحسین إمامان قاما أو قعدا: (حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے قیام کریں چاہے بیٹھ جائیں) ؟ میں نے کہا : یقیناً، آپ نے فرمایا : تو ایسی صورت میں اگر میں قیام کروں تب بھی امام ہوں اور بیٹھ جاؤں ( یعنی صلح کروں ) تب بھی مَیں امام ہوں۔۔۔ (علل الشرائع للصدوق 1: 211 الباب (159).)۔
مرکز الابحاث العقائدیۃ
جواب ماخوذ از : https://www.aqaed.com/faq/3429