بسم الله الرحمٰن الرحيم
مقدمة:
یقیناً آخرت پر ایمان اور یہ عقیدہ رکھنا کہ انسان کی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہاں ایک اور زندگی ہے، ایک نئی زندگی ہے جس میں ایک اور طرح کا رزق، خوش نصیبی یا بدبختی، یہ سب چیزیں انسان کو حقیقی ترغیب دیتی ہیں کہ وہ ان چیزوں کی تلاش کرے جو اس کی اخروی سعادت میں نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
اگرچہ انسان سائنسی اور عقلی میدان میں بہت ترقی کر چکا ہے، لیکن وہ اب بھی موت کے بعد کی دنیا میں خود داخل ہونے سے قاصر ہے۔ تجرباتی طریقوں پر مبنی سائنس اس بات کا قطعی فیصلہ نہیں کر سکتی کہ یہ عالم (آخرت) موجود ہے یا نہیں۔ یہاں انبیا (علیہم السلام) کا کردار سامنے آتا ہے، جنہوں نے یقینی خبروں کے ذریعے آخرت کے وجود کی خبر دی اور اس میں سعادت و بدبختی کے راستے واضح کیے۔ لہٰذا نبوّت کی ضرورت ایک عقلی اور ایک ایسی وجودی ضرورت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، بلکہ یہ ایک قطعی اور غیر قابل انکار ضرورت ہے۔
تاریخ میں بہت سے افراد ایسے ظاہر ہوئے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور خود کو خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کے پاس آسمانی پیغام ہے۔ بعض افراد نے اپنی فصاحت، شخصیت یا مخصوص سماجی حالات کی بنا پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، یہاں تک کہ بعض نے تحریکیں قائم کیں یا تاریخ پر اثر چھوڑا۔ اس صورت حال میں ایک بنیادی اور عقلی سوال جنم لیتا ہے جس کا سامنا ناگزیر ہے۔
ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے سچے نبی اور جھوٹے مدّعی نبوّت کے درمیان فرق کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں کئی طریقے ہیں جن کے ذریعے انبیا کی سچّی نبوت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ پہلاراستہ: پہلےوالےنبیکیتصدیق
نبوت کے دعوے کو ثابت کرنے کےلیے جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک معتبر طریقہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی طرف سے بعد والے نبی کی تصدیق کی جائے۔ چونکہ پہلے نبی کی نبوت قطعی دلائل اور ظاہر معجزات کے ذریعے ثابت ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے اس کا بعد والے نبی کی تصدیق کرنا عقلی و شرعی طور پر ایک قطعی حجت بن جاتا ہے کہ بعد والے نبی کا دعویٰ سچا ہے۔
یہ طریقہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے جن میں سب سے نمایاں مثال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی نبی اکرم محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وآله) کے بارے میں بشارت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
"وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ"۔[1]
یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ بشارت ان کی قوم کےلیے واضح تھی اور یہ نقل نہیں ہوا کہ ان کے زمانے کے عیسائیوں نے اس خبر کی تکذیب کی ہو، جو اس بشارت کی حجیت کو مزید مضبوط بناتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ بعد والے نبی کی نبوت کو تسلیم کرنا پچھلے نبی کی تعلیمات میں شامل تھا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ بائبل کی عبارتوں میں صدیوں کے دوران تحریف ہوئی ہے مگر کچھ قدیم نسخوں جیسے انجیل یوحنا (باب 14، 15، 16) میں اب بھی ایک ایسی شخصیت کا ذکر موجود ہے جسے "فارقلیطا" کہا گیا ہے۔ یہ سریانی لفظ ہے اور محققین کی تحقیق کے مطابق اس کے معنی "احمد" یا "محمد" کے ہیں۔ یہ ایک زبانی و تاریخی علامت ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبی خاتم (صلى الله عليه وآله) کے بارے میں بشارت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[2]
اسی بنیاد پر اہلِ کتاب میں سے کئی غیر جانبدار محققین نے توریت اور انجیل کی عبارتوں پر دوبارہ غور کیا تاکہ آخری نبوت کی نشانیاں تلاش کر سکیں اور ان میں سے بعض نے نبی محمد (صلى الله عليه وآله) کی سیرت اور شریعت کا ان بشارتوں سے موازنہ کرکے آپ کی نبوت پر ایمان بھی لے آئے۔ دوسراراستہ: سچائیپردلالتکرنےوالےشواہدوقرائن
نبوت کے دعوے کی صداقت کو ثابت کرنے کےلیے دوسرا معتبر طریقہ یہ ہے کہ مدعی کی ذاتی زندگی، اس کی سیرت اور اس کے دعویٰ کے گرد پائے جانے والے مختلف شواہد اور قرائن کا تجزیہ کیا جائے۔ یہ ایک عقلی طریقہ ہے جو غیر جانبدار اور منصفانہ تجزیے پر مبنی ہوتا ہے اور آج کے جدید عدالتی نظاموں میں بھی اسے جھوٹے دعوے اور سچے دعوے میں فرق کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔[3]
اسی اصول کے تحت نبی اکرم محمد (صلى الله عليه وآله) کی صداقت کو بھی کئی مضبوط اور ہم آہنگ قرائن کی بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے جیسے کہ:
1۔ بعثت سے قبل آپ کی ذاتی سیرت: آپ اپنی قوم میں "صادق" اور "امین" کے طور پر مشہور تھے۔ آپ کے بارے میں کبھی جھوٹ، خیانت، یا دنیاوی مال و جاہ کا لالچ ظاہر نہیں ہوا۔ یہ چیز اس امکان کو کمزور کرتی ہے کہ آپ کوئی جھوٹے مدعی ہوں۔
2۔ آپ کی دعوت کا مضمون: آپ نے توحید، عدل اور اخلاقِ حسنہ کی طرف بلایا، جو بلند اقدار ہیں اور عموماً دنیا پرستوں یا جھوٹے مدعیوں سے صادر نہیں ہوتیں۔
3۔ آپ پر ایمان لانے والی عظیم شخصیات: جیسے امام علی (علیہ السلام)، حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابوذر، حضرت عمار بن یاسر، حضرت بلال حبشی وغیرہ، یہ سب با بصیرت اور سچے لوگ تھے۔ ان کا آپ پر ایمان لانا آپ کے دعوے کی سچائی کو مزید تقویت دیتا ہے۔
4۔ تبلیغ اور دعوت کا اسلوب: آپ کی دعوت پرامن تھی، جوکہ بات چیت، دلیل اور حکمت سے شروع ہوتی، وہ موعظہ حسنہ کے ساتھ ممتاز تھی اور ایذاؤں، الزامات اور دشمنیوں کے باوجود بھی اسی طریقے پر جاری رہی۔
5۔ اصولوں پر ثابت قدمی: آپ کو مال، اقتدار اور عزت کی پیشکش کی گئی تاکہ آپ اپنی دعوت سے باز آ جائیں مگر آپ نے ان سب کو ٹھکرا دیا جو آپ کی سچائی اور اخلاص پر واضح دلیل ہے۔
بیشتر غیر جانبدار مفکرین اور محققین (چاہے وہ ابتدائے اسلام کے دور کے ہوں یا بعد کے ادوار کے) نے اسی منصفانہ طریقے کو اختیار کرکے نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) کی نبوت کی حقیقت تک رسائی حاصل کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ کا دعویٰ ہرگز جھوٹا نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ ایک سچا دعویٰ ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ تصدیق شواہد و دلائل پر مشتمل ہے۔ تیسراراستہ: معجزہ
نبوت کے دعوے کو ثابت کرنے کے مرکزی طریقوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو تمام ادوار میں انبیا (علیہم السلام) نے اختیار کیا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اپنی نبوت کے منکرین کو کسی ایسے غیر معمولی امر کے ذریعے چیلنج کرتے ہیں جو انسانی طاقت و عادت سے باہر ہو اور جس کی مثل لانے سے انسان عاجز رہ جائیں۔
معجزے کو حجت قاطع (یقینی دلیل) ماننے کےلیے چند بنیادی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ وہ واقعہ عام فطری قوانین اور انسانی معمولات سے ماورا ہو۔
2۔ وہ نبوت کے دعوے سے ہم آہنگ ہو، یعنی اس کا وقوع پیغامِ رسالت کی تصدیق کے سیاق میں ہو۔
3۔ معارضین کو کھلا چیلنج دیا جائے اور ان کےلیے مکمل مواقع موجود ہوں اس کے باوجود وہ اس کی مثل لانے سے عاجز رہیں۔
گزشتہ انبیا (علیہم السلام) نے کئی ایسے معجزات پیش کیے جن میں یہ تمام شرائط پائی جاتی تھیں، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا جو زندہ سانپ بن گیا، یا حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی جو تخلیق کے عام اصولوں سے ہٹ کر ظہور میں آئی۔[4]
نبی اسلام محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وآله) کی نبوت کے دوران بھی کئی ظاہری معجزات رونما ہوئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں
1۔ آپ کے ہاتھوں پر کنکریوں کا تسبیح کرنا
2۔ درخت کا اپنی جڑوں سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آنا۔
3۔ چاند کا دو حصوں میں تقسیم ہونا
تاہم آپ کا سب سے عظیم اور دائمی معجزہ، جو آپ کی آخری اور ہر زمانے میں آخری رسالت سے مطابقت رکھتا ہے، وہ قرآن مجید ہے۔
قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو عقل، زبان، شریعت اور علم کے اعتبار سے خارقِ عادت ہے اور زمان و مکان کی تمام حدود سے بلند ہے۔ نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) نے آغاز ہی سے اعلان فرمایا کہ یہ کتاب ان کی نبوت کا ثبوت ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دی کہ اگر وہ اس دعوے کو غلط سمجھتے ہیں تو اس جیسا کلام لا کر دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا۔[5]
کہدیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل لا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
پھر قرآن نے یہ چیلنج آسان کرکے فرمایا:
فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ: کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ۔[6]
اور اس کے بعد مزید تخفیف کرتے ہوئے فرمایا: فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ: تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ۔[7]
لیکن آج چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود، تمام فکری، لسانی اور تکنیکی وسائل کی موجودگی کے باوجود، کوئی بھی شخص یا گروہ قرآن جیسی کتاب یا ایک سورت بھی پیش نہ کر سکا۔ قرآن آج بھی اپنی فصاحت و بلاغت، نظم و اسلوب، تشریعات اور ہر دور میں نمایاں ہونے والے حقائق کے لحاظ سے معجزہ ہے۔
اسلام کے دشمن اس چیلنج سے غافل نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنی پوری طاقت صرف کی کہ کسی طرح اسلام اور نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) کا مقابلہ کیا جائے۔ انہوں نے آپ کو جادوگر اور دیوانہ تک کہا لیکن قرآن کا علمی و ادبی مقابلہ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قرآن انسانی طاقت سے ماورا کتاب ہے اور ایک دائمی معجزہ اور نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) کی سچی نبوت کی قطعی دلیل ہے۔ خاتمہ
جب ہم نبوت کے اثبات کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت کا دعویٰ کوئی جذباتی یا معمولی دعویٰ نہیں ہوتا جسے بغیر دلیل کے مان لیا جائے یا رد کر دیا جائے بلکہ یہ ایک نہایت سنجیدہ اور اہم دعویٰ ہے جس کےلیے یقینی دلائل اور مضبوط شواہد درکار ہوتے ہیں تاکہ مدعی کے صدق اور اس کے آسمانی تعلق کو ثابت کیا جا سکے۔
اس تحریر میں نبی محمد (صلى الله عليه وآله وسلم) کی سچائی کے اثبات کے اہم ترین راستوں کو بیان کیا گیا جو درج ذیل ہیں۔
گزشتہ نبی کی تصدیق: جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت نبی محمد (صلى الله عليه وآله) کے بارے میں، جو آسمانی رسالتوں کے ارتباط کو تقویت دیتی ہے۔
سیرت اور قرائن: نبی اکرم کی زندگی، دعوت کا سچا ہونا، اصولوں کی عظمت، شخصیت کی پاکیزگی، اور امت و انسانیت پر دیرپا اثرات۔
معجزہ: خاص طور پر قرآن کا مستقل چیلنج جو چودہ سو سال سے باقی ہے اور جس کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا جا سکا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب انسانی طاقت سے بالاتر ہے۔
ان تمام پہلوؤں سے واضح ہوتا ہے کہ نبی محمد (صلى الله عليه وآله) کی نبوت کسی رسم یا تقلیدی عقیدے پر مبنی نہیں، بلکہ ایک مکمل عقلی، شرعی، تاریخی اور اخلاقی نظام پر استوار ہے، جو ایمان کو صرف مذہبی ضرورت نہیں، بلکہ علمی اور منطقی تقاضا بناتی ہے۔
یہ تحقیق اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ رسالتِ محمدی ایک عالمگیر، سچی اور ہر دور میں قابلِ اطلاق دعوت ہے اور نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) کی نبوت پر ایمان لانا سچائی تک پہنچنے کے طالب علم کےلیے ایک لازمی علمی و اعتقادی قدم ہے۔