سردارِ شہداء حضرت حمزہ بن عبد المطلب
سردارِ شہداء حضرت حمزہ بن عبد المطلب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ
پندرہ شوال تین ہجری کو مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک خون ریز جنگ ہوئی جسے تاریخ میں جنگ احد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسی جنگ کے بارے میں قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی : (وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ) آل عمران:166.
ترجمہ: اور دونوں فریقوں کے درمیان مقابلے کے روز تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اللہ کے اذن سے تھی اور (اس لیے بھی کہ) اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مومن کون ہیں
جنگ احد کی المناک یادوں میں سے ایک اس جنگ میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب (علیہ السلام) کی شھادت بھی ہے۔
حضرت حمزہ(علیہ السلام) رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک بہت ہی بلند اور مقرب ترین منزلت رکھتے تھے روایات میں مذکور ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلا علَم حضرت حمزہ کو عطا کیا اور ان کی بہادری اور ایمانی بلندی کی بنا پہ انہیں اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علمدار مقرر کیا۔
ابو جہل کی قیادت میں تین سو سواروں کے قافلہ کی نگرانی کرنے کے لیے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ(علیہ السلام) کو تیس سواروں کا سالار بنا کر بھیجا اور اس موقع پہ انہیں اسلام کا پہلا علم عطا کیا۔ حضرت حمزہ (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس قافلہ کی ہر طرح کی نقل و حرکت پہ نظر رکھی۔ اس واقعہ میں دونوں اطراف کے درمیان کوئی جنگی جھڑپ نہ ہوئی اور قافلہ کے گزر جانے کے بعد جناب حمزہ اپنے مختصر لشکر کے ہمراہ واپس مدینہ آ گئے۔
حضرت امیر حمزہ بن عبدالمطلب (علیہ السلام) جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو شہادت تک ایک ایک لمحہ اللہ اور اسکے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہوئے گزرا۔ آپ (علیہ السلام) دشمنانِ خدا و رسول پر دھاڑنے والے عظیم ببر شیر کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمن آپ (علیہ السلام) کے رعب و دبدبہ سے کانپنے لگتا اور مقابلہ کی ہمت نہ کرپاتا۔
حضرت حمزہ(علیہ السلام) نے غزوة بواط، ابواء اور بني قينقاع میں بھی علمداری کے فرائض سر انجام دئیے۔
غزوہ بدر میں جناب حمزہ نے بڑھ چڑھ کر اسلامی لشکر کی مدد کی اور اپنی بہادری اور اسلام سے پُر خلوص عقیدت کو سنہری الفاظ میں تاریخ کی پیشانی پہ ثبت کیا۔
غزوہ احد میں حضرت حمزہ کی شجاعت، بہادری اور اسلام کے دفاع کے لیے ادا کیے جانے والے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
حضرت حمزہ(علیہ السلام) نے جنگ بدر میں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو جہنم واصل کیا تھا جس کی وجہ سے مشرکین مکہ نے جنگ احد میں انتقام کی آگ بجھانے کے لیے حضرت حمزہ (علیہ السلام) کو اپنا اولین ہدف قرار دیا۔ حضرت حمزہ(علیہ السلام) کے ہاتھوں جنگ بدر میں قتل ہونے والوں میں ہند بنت عتبہ کے قریب ترین عزیز و اقارب بھی شامل تھے۔ ہند نے اپنے جہنم واصل ہونے والے باپ اور بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے وحشی بن حرب کو انعام و اکرام کی لالچ دے کر حضرت حمزہ(علیہ السلام) کے قتل پہ مامور کیا۔ ہند کی طرف سے وحشی نامی اس حبشی غلام کو اس کام پہ مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت حمزہ(علیہ السلام) کے مقابلے میں جو بھی آتا وہ ہر صورت میں قتل ہوتا اور آمنے سامنے ہونے والے مقابلے میں کسی کے لیے بھی حضرت حمزہ(علیہ السلام) پر غلبہ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ جبکہ وحشی نامی حبشی غلام ایک چھوٹے نیزے کو دور سے ہدف کی طرف پھینکنے میں مہارت رکھتا تھا اور اس زمانے میں عربوں میں اس چھوٹے نیزے کا اس طرح سے استعمال معروف نہیں تھا لہٰذا جنگ احد کے دوران جب حضرت حمزہ(علیہ السلام) مشرکین مکہ کو واصل جہنم کر رہے تھے اس وقت وحشی نے دور سے چھپ کر اپنے اس چھوٹے نیزہ کو حضرت حمزہ(علیہ السلام) کی طرف پھینکا جو حضرت حمزہ(علیہ السلام) کے پیٹ میں آ کر پیوست ہو گیا اور اسی کی وجہ سے جناب حمزہ(علیہ السلام) نے جام شھادت نوش کیا۔ جناب حمزہ (علیہ السلام) کی روح پرواز کرنے کے بعد ہند نے جناب حمزہ کا پیٹ چاک کر کے ان کا جگر نکال کر دانتوں سے چبانا چاہا لیکن بحکم خدا پتھر میں تبدیل ہو گیا۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب(علیہ السلام) کی شہادت کی خبر ملی تو اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت زیادہ غمزدہ ہوئے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اپنے چچا کی میت پہ ماتم کرنے کا حکم دیا اور خود بھی ان الفاظ میں اپنے چچا پہ نوحہ پڑھا: (لن أُصاب بمثلك، ما وقفتُ موقفاً قَطّ أَغْيَظُ عَليَّ من هذا الموقف) (يا عمَّ رسولِ الله، وأسدَ الله، وأسدَ رسولِ الله، يا حمزةُ يا فاعل الخيراتِ، يا حمزةُ يا كاشف الكُرُبَاتِ، يا حمزةُ يا ذابّاً يا مَانِعاً عن وجه رسول الله..)
فوجِ اعدا میں گُھس کر سناں بازیاں
دُور ہی سے کبھی تیر اندازیاں
پرچمِ افتخارِ صفِ غازیاں
اُن کے آگے وہ حمزہ کی جانبازیاں
شیرِ غُرّانِ سَطوَت پہ لاکھوں سلام