17 رمضان المبارک کا دن جنگِ بدر کی یاد تازہ کرتا ہے، غزوہ بدر ہجرت کے دوسرے سال ماہ رمضان میں ہوئی تھی، یہ جنگ مسلمانوں اور کفارِ قریش کے درمیان ہونے والی سب سے مشہور جنگوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، اس جنگ میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے علم امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کے ہاتھ میں دیا تھا اور اس وقت آپ (علیہ السلام) کی عمر 25 سال تھی۔
اس معرکہ کا نام اس علاقے کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں یہ جنگ ہوئی تھی، اور وہ بدر کا کنواں ہے[2] جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے، یہ عربوں کی تجارتی منڈیوں کے مراکز میں ایک مرکز تھا، اور عرب ہر سال تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے۔
جنگ بدر کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ قریش نے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا، اور مکہ میں ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی، تاہم قریش نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا نہیں چھوڑا، بلکہ ان کے مال و اسباب کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ابوسفیان 40 افراد پر مشتمل ایک تجارتی قافلے کو کہ جن کے پاس 50 ہزار دینار مالیت کی چیزیں تھیں لیکر شام کی طرف روانہ ہوا، کاروان شام سے واپس مدینہ کی طرف آرہا تھا که رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اصحاب کو حکم دیا کہ ابو سفیان کی سرپرستی میں جانے والے کاروان کی طرف حرکت کرئے تاکہ ان کے اموال کو مصادرہ کیا جاسکے اور اس طریقے سے دشمن کے اقتصادی قوت کو کمزور کیا جاسکے،ابو سفیان مسلمانوں کی ٹیکنیک سے با خبر ہوا اور نہایت سرعت کے ساتھ ایک قاصد کو مدد طلب کرنے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ کردیا، قاصد نے ابوسفیان کے دستور پر عمل کرتے ہوئےاپنی سواری (اونٹ) کی ناک اور کان کاٹ کر خون لہولہان کیا، اپنی قمیص کو پھاڑ کر عجیب حلیے کے ساتھ مکہ میں وارد ہوا تاکہ لوگوں کی توجہ جلب کی جاسکے اور فریاد بلند کی: (کاروان کو بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ، محمد اور اس کے پیروکاروں نے کاروان پر حملے کا ارادہ کر لیا ہے)، اس اعلان کے ساتھ ہی ابو جہل 950 جنگجوؤں کے ساتھ 700 اونٹ اور 100 گھوڑوں کو لیکر «بدر» کی طرف روانہ ہوا، دوسری طرف سے ابو سفیان نے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے راستہ تبدیل کیا اور مسلمانوں سے اپنے آپ کو بچا کر مکہ پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 313 افرا دکو لیکر بدر کے مقام پر پہنچ گئے اور دشمن سے آمنا سامنا ہوا، اسی اثنا میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے مشوہ کیا تو اصحاب دو حصوں میں تقسیم ہوئے، ایک گروہ نے ابو سفیان کا پیچھا کرنے کو ترجیح دی جبکہ دوسرے گروہ نے ابو جہل کے لشکر سے لڑنے کو ترجیح دی، ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا اسی دوران مسلمانوں کو دشمن کی تعداد، اسباب وسامان اور تیاری کے متعلق اطلاع موصول ہوئی توان کے درمیان اختلاف پہلے سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری رائے کو ترجیح دی اور دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہونے کا حکم صادر کر دیا، لشکر اسلام اور لشکر کفر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوئے، مسلمانوں کی کم تعداد کو دیکھ کر دشمن حیرت زدہ رہ گیا، ادھر سے مسلمانوں میں سے بعض کفار کی تعداد اور جنگی ساز وسامان دیکھ کر کانپنے لگ گئے، اس ناگفتہ بہ حالت کو دیکھ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو غیبی خبر سے آگاہ کیا اور فرمایا: «خداوند کریم نے مجھے خبر دی ہے کہ ہم ان دو گروہوں میں سے ایک یعنی ابو سفیان کے تجارتی کاروان یا لشکر ابوجہل میں کسی ایک پر ضرور فتحیاب ہونگے، اور خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، خدا کی قسم! گویا میں ابو جہل اورقریش کے بعض دیگر مشہور لوگوں کے قتل ہونے کی جگہوں کو اپنی آنکھوں سےدیکھ رہا ہوں»، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ا پنے اصحاب کے خوف ووحشت کو دیکھ کر وعدہ الہی بیان کرتے ہوئے فرمایا: «فکر نہ کریں اگرچہ ہماری تعداد کم ہے لیکن فرشتوں کا ایک عظیم گروہ ہماری مدد کے لیے آمادہ ہے» بدر کا میدان ریت کی نرمی کے سبب جنگ کے لیے بالکل مناسب نہ تھا لیکن خدا کی مدد سے رات کو خوب بارش ہوئی اور صبح صحرا جنگ کے لیے آمادہ وتیار ہوچکی تھی، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے دشمن کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا لیکن ابو جہل نے اسے رد کر تے ہوئے جنگ کا اعلان کردیا، لشکر کفر کی طرف سے عتبه، شیبه اور ولیدجبکہ مسلمانوں کی طرف سے تین انصار میدان میں اترے، کفار نے انصار کے جوانوں کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ہم پلہ قریش کے لوگوں سے لڑیں گے ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خاندان سے تین افراد عبیدة بن حارث، حضرت حمزه اور امیر المؤمنین على (علیہ السلام) کو طلب کیا اور انہیں میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا،امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) نے ولید کو واصل جہنم کیا اور شیبہ جو حضرت حمزہ سے بر سرپیکار تھا ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا اور عبیدہ کی مدد کو پہنچے ، عتبہ کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی آپ (علیہ السلام) کی ایک ضربت سے وہ بھی مرگیا، اور یوں حضرت علی (علیہ اسلام) نے تینوں جنگجوؤں کو قتل کردیا۔
امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) نے اپنی حکومت کے دوران معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: "میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے تیرے دادا عتبہ، چچا شیبہ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا"۔
ان تین افراد کے قتل کے بعد ابو جہل نے عمومی حملے کا حکم دیا اور ساتھ یہ نعرہ بلند کیا: اِنّ لنا الْعُزّی ولا عُزّی لکم،تو مسلمانوں نے نعرہ لگایا: اللّه مَوْلانا و لا مَوْلی لکم۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو جہل کے قتل کے انتظار میں تھے جونہی اس کی موت کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: خدایا! تو نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا۔
جنگ بدر کفار کی بدترین شکست اور مسلمانوں کے فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، ابو جہل سمیت کفار کے بڑے نامدار سپہ سالار اس جنگ میں کام آئے، کفار کے لشکر سے ۷۰ افراد قتل اور اتنی تعداد میں لوگ اسیر جبکہ 14 مسلمان شہید جن میں ۶ مہاجر اور 8 انصار تھے، غنیمت میں 150 اونٹ، 10 گھوڑے سمیت دیگر جنگی سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔
اس جنگ میں کفار نے امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کو سرخ موت کا نام دیا کیونکہ ان کے بڑے جنگجو آپ (علیہ السلام) کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے، تاریخ کے کتب میں ان سب کا نام موجود ہے۔