ابو القاسم حسین بن روح نوبختی (متوفی 326ھ) امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے تیسرے نائب خاص، امام حسن عسکری کے اصحاب اوربغداد میں محمد بن عثمان (دوسرے نائب خاص) کے قریبی معتمدین میں سے تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے حکم سے حسین بن روح کو اپنا جانشین مقرر کیا،نیابت کے ابتدائی دور میں حسین بن روح بنی عباس کے حکام کے یہاں ممتاز مقام و منصب کے حامل تھے، لیکن بعد میں ان کے تعلقات خراب ہو گئے یوں آپ کو کچھ مدت کے لیے مخفیانہ زندگی گزارنا پڑا اور آخر کار پانچ سال کے لیے زندان بھی جانا پڑا،حسین بن روح کے دوران نیابت کے اہم ترین واقعات میں سے ایک شلمغانی کا واقعہ ہے جو ان کا مورد اعتماد وکیل تھا لیکن گمراہی کا شکار ہوا،اس بنا پر امام زمانہ(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی طرف سے ان کی مذمت میں توقیعات بھی صادر ہوئیں،بعض فقہی کتابوں کی تصنیف اور علمی مناظرات میں مختلف موضوعات پر عبور اور تسلط رکھنے کی بنا پر آپ کو علمی حلقوں میں ممتاز حیثیت حاصل تھی یہاں تک کہ بعض احادیث کی کتابوں میں کرامات بھی ان سے منسوب کی گئی ہیں[2]۔جن میں سے چند کرامات کا ذکر حصہ دوم میں ذکر ہوگا۔
خاندان:
حسین ابن روح (رحمۃ اللہ علیہ) کا تعلق ایرانی خاندان سے تھا جسے "نوبخت[3]" کہا جاتا ہے۔ نوبخت کو ان کے خاندان کا موروث اعلیٰ بتایا گیا ہے، دوسرے عباسی خلیفہ منصور (158-136ھ) کے زمانہ میں زرتشتی مذہب کے پیروکار تھے۔ پھر اسلام قبول کرنے کے بعد عباسی خلفاء کے دربار تک رسائی حاصل کی اور اسلامی علوم اور تہذیب کے پھیلاؤ میں نمایاں خدمات انجام دیں، وہ علم فلکیات میں اپنے وقت کے معروف ماہر فلکیات ہوئے ہیں، مختلف ادوار میں نوبخت کے پوتے اور نواسے فارسی سے عربی میں مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ نامور فلکیات دان، راوی، فقیہ، فلسفی، اورنامور شاعر بھی ہوئے ہیں، اور ان میں سے بعض نے اہم سرکاری عہدوں پر اپنی خدمات انجام دی ہیں،
اگرچہ نوبخت خود اسلام قبول کرنے کے بعد بغداد کے خلفائے راشدین کے مذہب (سنی)پرکے طریق پر کاربند رہے، لیکن بعد میں نوبخت قبیلہ کے تمام افراد نے شیعہ مذہب اپنا لیا، اور اہل بیت (علیہم السلام) کے عقیدت مندوں اور پیروکاروں میں شامل ہو گئے، جن میں سے بعض نمایاں شخصیات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
1. ابو سہل بن نوبخت، ماہر فلکیات۔
2. ابو سہل فضل بن نوبخت، فلسفی اور ماہر علم کلام۔
3. ابو اسحاق بن اسحاق ابن ابی سہل، ماہرعلم کلام اور کتاب "الیاقوت" کے مصنف۔
4. ابو سہل اسماعیل بن علی، امام ہادی اور امام عسکری (علیہماالسلام) کے اصحاب میں سے تھے۔
5. ابو محمد حسن بن موسیٰ نوبختی، مورخ ہوئے ہیں اور کتاب "فرق الشیعہ" کے مصنف ہیں۔
6. حسن بن سہل نوبختی، مشہور ماہر فلکیات ہوئے ہیں۔
7. ابو عبداللہ احمد بن عبداللہ نوبختی، شاعر ہوئے ہیں۔
8. ابو حسین علی ابن عباس نوبختی، شاعرہوئے ہیں۔
حسین بن روح (رضوان اللہ تعالی علیہ) اپنے زمانے کے داناترین اور عاقلترین افراد میں سے تھے جو زمانے کے تقاضوں سے مکمل آشنائی رکھتے تھے اور مخالفین کے ساتھ معاشرت میں تقیہ سے کام لیتے تھے[4]،وہ ایک عظیم عالم، فقیہ، محدث ہوئے ہیں، فقہ میں’’التادیب‘‘ نامی کتاب تالیف فرمائی اور نظر ثانی کے لیے بغداد سے قم بھیجا، تا کہ قم میں موجود علماء و فقہاء اپنی رائے پیش کریں[5]، قم کے علما نے نظر ثانی کے بعد سوائے ایک مطلب کے سارے مضامین کی تائید کر کے یہ کتاب ان کی طرف واپس بھیج دی[6] اسکے علاوہ آپ کے علمی مناظرے اپنی مثال آپ ہیں، نیز زیارت رجبیہ آپ سے ہی نقل ہوئی ہے[7]۔ اگر آپ رجب کے مہینے میں کسی بھی امام (علیہ السلام) کی زیارت کو جائیں تو یہ دعا پڑھیں[8]:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ٲَشْھَدَنَا مَشْھَدَ ٲَوْ لِیَائِہٖ فِیْ رَجَبٍ
حمد خدا ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں رجب میں اپنے اولیاء کی زیارت گاہوں پر حاضر کیا
وَٲَوْجَبَ عَلَیْنَا مِنْ حَقِّھِمْ مَا قَدْ وَجَبَ
اور ان کا حق ہم پر واجب کیا جو ہونا چاہئے تھا
وَصَلَّی ﷲُ عَلٰی مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ
اور رحمت خدا ہو عالی نسب محمد (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم) پر
وَعَلٰی ٲَوْصِیَائِہِ الْحُجُبِ۔
اور ان کے اوصیاء پر جو صاحب حجاب ہیں
اَللّٰھُمَّ فَكَمَا ٲَشْھَدْتَنَا مَشْھَدَھُمْ
اے معبود! پس جیسے تو نے ہمیں ان کی زیارت کی توفیق دی
فَٲَنْجِزْلَنَا مَوْعِدَھُمْ، وَٲَوْرِدْنَا مَوْرِدَھُمْ
ویسے ہی ہمارے لئے ان کا وعدہ پورا فرما اور ہمیں ان کی جائے ورود پر وارد فرما
غَیْرَ مُحَلَّئیِنَ عَنْ وِرْدٍ فِیْ دَارِ الْمُقَامَۃِ وَالْخُلْدِ
بغیر کسی روک ٹوک کے جائے اقامت اور خلد بریں میں پہنچا دے
وَاَلسَّلَامُ عَلَیْكُمْ
اور سلام ہو آپ پر
اِنِّیْ قَدْ قَصَدْتُكُمْ وَاعْتَمَدْتُكُمْ بِمَسْٲَلَتِیْ وَحَاجَتِیْ
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اوراپنی حاجت و سوال کے لیے آپ پر بھروسہ کیا
وَھِیَ فَكَاكُ رَقَبَتِیْ مِنَ النَّارِ
اور وہ یہ ہے کہ میری گردن آگ سے آزاد ہو
وَالْمَقَرُّ مَعَكُمْ فِیْ دَارِ الْقَرَارِ مَعَ شِیْعَتِكُمُ الْاَ بْرَارِ
اور میرا ٹھکانہ آپ کے ساتھ آپ کے نیکوں کار شیعوں کے ساتھ ہو
وَاَلسَّلَامُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
اور سلام ہو آپ پر کہ آپ نے صبر کیا آپ کا کیا ہی اچھا انجام ہے
ٲَنَا سَائِلُكُمْ وَاٰمِلُكُمْ
میں آپ کے در کا سوالی ہوں اور میری امیدیں آپ سے وابسطہ ہیں
فِیْمَا اِلَیْكُمُ التَّفْوِیْضُ وَعَلَیْكُمُ التَّعْوِیْضُ
ان چیزوں کیلئے جو آپ کے اختیار میں ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے
فَبِكُمْ یُجْبَرُ الْمَھِیْضُ، وَیُشْفَی الْمَرِیْضُ
آپ کے ذریعے شکستگی کا مداوا اور بیمار کو شفا ملتی ہے
وَمَا تَزْدَادُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَغِیْضُ
اور جو کچھ رحموں میں بڑھتا اور گھٹتا ہے
اِنِّیْ بِسِرِّكُمْ مُؤْمِنٌ، وَلِقَوْ لِكُمْ مُسَلِّمٌ
بے شک میں آپ کے اسرار پر ایمان اور آپ کے کلام پر سر بہ خم ہوں
وَعَلَی ﷲِ بِكُمْ مُقْسِمٌ فِیْ رَجْعِیْ
میں خدا کو آپ کی قسم دیتا ہوں کہ میری حاجتوں پر توجہ دے
بِحَوَائِجِیْ وَقَضَائِہَا وَاِمْضَائِہَا وَاِنْجَاحِہَا وَاِبْرَاحِہَا
انہیں پورا کرے، ان کا اجرا کرے اور کامیاب کرے یا ناکام کرے
وَبِشُؤُوْنِیْ لَدَیْكُمْ وَصَلَاحِہَا
اور جو کام میں نے آپ کے سپرد کیے ہیں ان میں بہتری کرے
وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ سَلَامَ مُوَدِّعٍ وَلَكُمْ حَوَائِجَہٗ مُوْدِعٌ
اور اپنی حاجات کو آپ کے سپرد کرکے الوداع کہنے والے کا آپ پر سلام
یَسْٲَلُ ﷲَ اِلَیْكُمُ الْمَرْجِعَ
وہ خدا سے سوال کرتا ہے کہ آپ کے ہاں واپس آئے
وَسَعْیُہٗ اِلَیْكُمْ غَیْرَ مُنْقَطِعٍ
اور اس کا آپ کی بارگاہ میں حاضری دینے کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو
وَٲَنْ یَرْجِعَنِیْ مِنْ حَضْرَتِكُمْ خَیْرَ مَرْجِعٍ
اللہ اسے بار بار آپ کی نیک ترین زیارت نصیب فرمائے
الٰی جَنَابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضٍ مُوَسَّعٍ
تو یہ جگہ ہموار، سر سبز اور وسیع ہو چکی ہو
وَدَعَۃٍ وَمَھَلٍ اِلٰی حِیْنِ الْاَجَلِ
کہ تا دم مرگ وہ یہاں رہے
وَخَیْرِ مَصِیْرٍ وَمَحَلٍّ فِی النَّعِیْمِ الْاَزَلِ
اور اس کا انجام بخیر ہو، ہمیشہ کی نعمتیں نصیب ہوں
وَالْعَیْشِ الْمُقْتَبَلِ، وَدَوَامِ الْاُكُلِ
آئندہ زندگی خوشگوار ہو، ہمیشہ بہترین غذائیں ملیں
وَشُرْبِ الرَّحِیْقِ وَالسَّلْسَلِ
اور پاکیزہ مشروب اور آب شریں سے سیراب ہوتا رہے
وَعَلٍّ وَنَھَلٍ لَا سَٲَمَ مِنْہُ وَلَا مَلَلَ
اور یہ مہینہ بار بار آئے جس میں نہ تنگی آئے نہ رنج ہو
وَرَحْمَۃُ ﷲِ وَبَرَكَاتُہٗ وَتَحِیَّاتُہٗ عَلَیْكُمْ
اور خدا کی رحمت، برکتیں اور درود و سلام ہو آپ پر
حَتَّی الْعَوْدِ اِلٰی حَضْرَتِكُمْ
جب تک کہ میں دوبارہ حاضر بارگاہ ہوں
وَالْفَوْزِ فِیْ كَرَّتِكُمْ، وَالْحَشْرِ فِیْ زُمْرَتِكُمْ
آپ کی رجعت میں کامیاب رہوں حشر میں آپ کے گروہ میں اٹھوں
وَرَحْمَۃُ ﷲِ وَبَرَكَاتُہٗ عَلَیْكُمْ وَصَلَوَاتُہٗ وَتَحِیَّاتُہٗ
خدا کی رحمت اور برکتیں ہوں آپ پر اور اس کی نوازشیں اور سلامتیاں
وَھُوَ حَسْبُنَا وَنِعْمَ الْوَكِیْلُ۔
نوبختی خاندان کی شخصیات آئمہ معصومین (علیہم السلام) سے گہرے لگاؤ اور قربت کی وجہ سے سفارتی أمور میں بڑی حد تک مضبوط تھے، ان میں حسین بن روح (رحمۃ اللہ) کا کردار دوسروں کی نسبت زیادہ نمایاں تھا، حسین بن روح (رحمۃ اللہ) نے وکالت اور نیابت کے معاملات میں اپنے پیشرو نائب حضرات عثمان ابن سعید اور محمد ابن عثمان رحمۃ اللہ علیہما کے ساتھ قابل تحسین تعاون کیا، اور ان کی جانب سے ان دونوں کے لیے بطور معاون پر خلوص خدمت و تعاون کا سلسہ برسوں جاری رکھا، دوسری جانب پوری دور اندیشی اور دانائی سے "نوبختی" اور "بنو فرات" خاندان کے ان افراد سے رابطے میں رہے جن کے پاس عباسی حکومت کے اعلیٰ عہدے تھے، اور ان کا عباسی حکومت میں بڑے پیمانے پر اثر و رسوخ تھا، اس لیے ان کے لیے شیعوں کے مسائل حل کرنا ایک حد تک آسان تھا، سنہ 298 ہجری میں جب بغداد میں اس وقت کی حکومت کے وزیر بن عیسی جراح نے "عقیقی" نامی ایک علوی کا مسئلہ حل کرنے سے انکار کیا تو وہ حسین ابن روح کے پاس آیا اور ان کے توسط سے اپنا مسئلہ حل کرانے کا کہا، تو انہوں نے علی ابن عیسیٰ کو اس مسئلے کے حل کے لیے پیغام بھیجا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حسین بن روح کی ہمہ گیر شخصیت ابھر کر سامنے آنے لگی، اور وہ دوسرے نائب خاص محمد ابن عثمان عمری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے، اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بہت سی مشہور اور ممتاز شخصیات ان کی نگرانی میں کام کر رہی تھیں، دوسری جانب دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان وقتاً فوقتاً حسین بن روح کو اپنے بعد امام زمانہ (علیہ السلام) کے نائب خاص کے طور پر متعارف کرواتے رہے اور لوگوں سے کہتے کہ میرے بعد امام زمانہ (علیہ السلام) کے نیابتی أمور مین حسین بن روح کی طرف رجوع کرنا۔
ابو جعفر محمد بن علی اسود کا واقعہ:
أبو جعفر بیان کرتے ہیں: میں ہمیشہ محمد بن عثمان (دوسرے نائب خاص) کے پاس أموال (خمس و زکوۃ وغیرہ) بھیجتا رہتا تھا، اور وہ بھی میری طرف سے بھیجے گئے أموال وصول کر لیتے تھے، ان کی وفات سے دو تین سال پہلے، ایک دن، میں جمع شدہ اموال ان کے پاس لے کر آیا، تو انہوں نے مجھے یہ اموال حسین بن روح تک پہنچانے کا حکم دیا اور فرمایا: "جو کچھ ابو القاسم کو وصول پایا، سمجھو میں نے وصول پایا"۔
ابو عبداللہ جعفر بن محمد مدائنی کا واقعہ:
ابو عبداللہ جعفر بن محمد مدائنی کے ساتھ پیش آیا، جونائب خاص کے کارمندوں میں سے تھے،اور کاظمین شہر میں مقیم تھے، وہ بتاتے ہیں کہ:
"محمد بن عثمان (دوسرے نائب خاص) کی زندگی کے آخری ایام میں، مَیں ان کے لیے تقریباً چار سو دینار لے کر آیا تھا، لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیا اور کہا: اسے حسین ابن روح تک پہنچاؤ، میں نے کہا:ہمیشہ سے آپ ہی ان أموال کو وصول کرتے ہیں،لہذا اب بھی آپ ہی وصول کرلیں، (جعفر بن محمد مدائنی إصرار پر محمد بن عثمان کا لب و لہجہ اس لیے خشمگین ہوا تھا کیونکہ محمد بن عثمان کو امام زمانہ"عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف" نے بتا دیا تھا کہ آپ کا وقت قریب ہے اور آپ کے بعد میرے نائب خاص حسین بن روح ہوں گے)، تو انہوں خشمگین اور ترش لہجے میں أموال وصول کرنے سے انکار کیا، اور کہا: "خدا آپ کو صحت و تندرستی سے نوازے رکھے، جائیے اور یہ أموال حسین بن روح کے سپرد کیجیئے" مدائنی کہتے ہیں: میں نے جب ان خشمگین لہجہ دیکھا تو وہاں سے نکل آیا، اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے روانہ ہوگیا، اور کچھ دور جانے کے بعد پھر ان کے گھر کی طرف پلٹا، دروازہ کھٹکھٹایا، ان کا خادم آیا، دیکھتا ہوں کہ محمد بن عثمان اپنے حجرے میں داخل ہورہے ہیں، اور پھر آکر کرسی پر بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا: آپ نے میرےکہے پر عمل کیوں نہیں کیا، اور حرف حق کو کیوں سنا ان سنا کردیا؟ میں نے ابو القاسم حسین ابن روح کو اپنے عہدے پر فائز کیا ہے اور انہیں اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ ’’میں نے حسین بن روح کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے اور انہیں اپنی جگہ پر مقرر کیا ہے۔‘‘
مدائنی بیان کرتے ہیں: "اس کے بعد، میں اٹھ کر حسین بن روح کے پاس پہنچا میں نے انہیں چار سو دینار دیے اور اس کے میں ہمیشہ ان کے پاس ہی جاتا اورانہی کے ہاتھ أموال سپرد کرتا تھا..."
تیسری نیابت کے دور کا آغاز:
دوسرے نائب خاص محمد ابن عثمان بیمار پڑے تو ابو سہل اسماعیل بن علی نوبختی اور چند دیگر ممتاز شیعہ شخصیات ان کی عیادت کو گئے، اس دوران ان سے ان کے بعد ہونے والے نائب کے بارے میں پوچھا گیا: کہ اگر آپ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تو آپ کے بعد آپ کی جگہ کون لے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ: هذا أبو القاسم الحسين بن روح بن أبي بحر النوبختي، القائم مقامي و السفير بينکم و بين صاحب الأمر و الوکيل له و الثقة الأمين. فارجعوا إليه في أمورکم و عوّلوا عليه في مهمّاتکم فبذلک أمرت و قد بلغت......[9] (ترجمہ:یہ ابو القاسم الحسین بن روح بن ابی بحر النوبختی میرے قائم مقام ہیں، اور تمہارے اور صاحب امر کے درمیان وکیل اور ان کے ثقہ و امین ہیں پس اپنے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرو اور اپنے کاموں میں انہی پر بھروسہ کرو،مجھے اسی (پیغام کو پہنچانے) کا حکم دیا گیا ہے، اور بالتحقیق میں نے یہ پیغام (آپ لوگوں ) تک پہنچیا دیاہے)
ایک اور روایت میں آیا ہےکہ جعفر بن احمد بن متیل (جو ممتاز شیعہ شخصیات میں سے ایک ہوئے ہیں، جن کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں تیسرے نائب کے طور پر منتخب کیا گیا تھا) بیان کرتے ہیں: "محمد بن عثمان کی وفات کے وقت میں ان کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ان سے باتیں کر رہا تھا، اور ابوالقاسم حسین ابن روح ان کے پائنتی جانب بیٹھے ہوئے تھے، اس اثنا محمد بن عثمان أبو القاسم حسین بن روح کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: أمرت أن أوصي إلي أبي القاسم الحسين بن روح (ترجمہ:مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں (امر نیابت کو) ابو القاسم الحسین بن روح کے سپرد کروں)۔
جعفر بن احمد کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ جملہ سنا تو میں محمدبن عثمان کی سرہانی جانب سے اٹھا اور حسین بن روح کا ہاتھ پکڑا، ان کو اپنی جگہ پر بٹھایا اورخود محمدبن عثمان کی پائینتی جانب بیٹھ گیا۔
305ہجری جمادی الاول کے آخری دن امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دوسرے نائب خاص اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ابوالقاسم حسین ابن روح نے امام وقت کے تیسرے نمائندے اور نائب خاص کی حیثیت سے یہ ذمہ داری سنبھالی۔
علامہ مجلسی (رحمہ اللہ) سید ابن طاؤس کی کتاب "منہج الدعوات و منھج العنایات" کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: جس دن دوسرے نائب خاص کا انتقال ہوا، اس دن حسین بن روح اپنے گھر میں بیٹھے تھے، "ذکا" نامی شخص جو محمد بن عثمان کا خادم تھا، وہ ایک لاٹھی، صندوقچہ، اور کتابچہ لے کر حسین بن روح کے پاس آیا، حسین بن روح نے کہا:کہ یہ عصا امام حسن عسکری (علیہ السلام) کا ہے، اور اس صندوقچہ میں آئمہ اطہار (علیہم السلام) کی انگشتریاں ہیں، پھر ان انگشتریوں کو صندوقچہ سے نکال کر وہاں موجود لوگوں کو دکھائیں۔ پھر فرمایا: کہ اس کتابچہ میں آئمہ (علیہم السلام) کا قنوت لکھا ہوا ہے، اس کے بعد آپ نے حاضرین کے لیے امام حسن (علیہ السلام) کا قنوت لوگوں کو املاء کرایا، اورکہا: ان قنوتوں کو اسی طرح حفظ یادکرو جس طرح تم اپنے دین کی اہم ترین چیزوں کو یاد کرتے ہو۔
مشہور سنی مورخین نے بھی اپنی کتب میں تھوڑے فرق کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد پانچ شوال 305 ہجری کو امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے حسین بن روح نوبختی کی نیابت کی تصدیق فرمائی، اور ان کی تعیناتی کے بارے میں پہلی توقیع شریف کچھ یوں جاری فرمائی: عرفه الله الخير كلّه ورضوانه، وأسعده بالتوفيق، وقفنا على كتابه، وثقتنا بما هو عليه. وإنه عندنا بالمنزلة والمحل اللذين يسر أنه زاده الله في إحسانه إليه[11] (ہم اسے [حسین بن روح] کو جانتے ہیں، خدا اسے اپنی تمام بھلائیوں اور خوشنودی سے آگاہ فرمائے، اور اسے اپنی توفیقات سے نوازے، ہمیں اس کے خط کے بارے میں معلوم ہوا، اور یہ مکمل طور پر قابل اعتماد و مورد اطمینان ہیں، ہماری نظر میں وہ اس مقام اور مرتبہ پر فائز ہے جو اس لے لیے باعث مسرت ہے، خدا اس پر اپنے احسانات کا اضافہ فرماتا رہے)۔
حسین بن روح نے بغداد میں دس وکلا اور دوسرے اسلامی شہروں میں موجود اپنے وکلا کے ذریعے امام زمانہ (ع) کی نیابت کے فرائض کو انجام دینا شروع کیا ان کے بعض وکلا اور کارگزاران کے اسماء درج ذیل ہیں:
محمد بن نفیس، اہواز میں اور حسین بن روح کے نیابت کے دوران امام زمانہ کی پہلی توقیع ان کے توسط سے شایع ہوئی۔
جعفر بن احمد بن متیل
ابو عبد اللّہ کاتب
احمد بن متیل
احمد بن ابراہیم نوبختی
ابوسہل نوبختی
محمد بن حسن صیرفی، بلخ میں
محمد بن جعفر اسدی رازی، شہر ری میں
حسن بن علی وجناء نصیبی، نصیبین میں
[محمد بن ہمام اسکافی
قاسم بن علاء، آذربایجان میں
محمد بن علی شلمغانی جو بعد میں گمراہ ہوا اور وکالت کے عہدے سے معزول ہوا [12]
بطور عام نواب اربعہ کے لیے کی گئی توثیق کہ جن کی وثاقت پر تمام اکابرین مذہب کا اجماع ہے، اور ان کا ماننا ہے کہ: چاروں نائب ممدوح ہیں،ان کی عدالت،امانت، اور جلالت پر سب کا اتفاق ہے[13]۔ ان میں سے تیسرے نائب حسین بن روح نوبختی ہیں۔
السید الخوئی فرماتے ہیں: ابو القاسم نوبختی: وہ بارہویں امام (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے سفیروں اور خاص نائبوں میں سے ایک ہیں، ان کی شہرت، جلالت اور عظمت نے ہمیں ان کے بارے میں تفصیلات میں جانے سے مستغنی رکھا ہے[14]۔
شیخ محی الدین مامقانی کا بیان ہے: مترجم (یعنی حسین بن روح) قدّس الله نفسة الزكية اس قدر عظمت، شہرت، وکالت، اور امام منتظر (علیہ السلام) سے قربت کے حامل ہیں کہ ہمیں ان کی وثاقت ثابت کرنے کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے[15]۔
[1] الغيبة، ص. 371-372
[2] ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف
[3] الغيبة، ج1، ص 406
[4] طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص112
[5] اعیان الشیعہ، ج6، ص22
[6] امین، اعیان الشیعہ، 1421ق، ج6، ص22
[7] مصباح المتہجدین، ص821
[8] بحار الأنوار - العلامة المجلسي، ج 99،ص195
[9] بحار الانوار،ج 51،ص355/ كمال الدين و تمام النعمۃ: 501 ح 28
[10] توقیع آئمہ(علیہم السلام) اور خاص طور پر امام مہدی (علیہ السلام) کے مکتوبات اور مراسلات کو (عربی میں"التوقيع" عربی) میں کہا جاتا ہے،بہت سی روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ یہ خطوط امام زمانہ(عج) کے اپنے قلم سے مرقوم ہوتے تھے، اس انتساب کا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ ان خطوط کے ذیل میں امام(عج) کی مہر ثبت ہوتی تھی اور اس طرح آپ(عج) مکتوب کے آخر میں واضح کردیتے تھے کہ یہ خط آپ(عج) نے اپنے دست مبارک سے مرقوم کیا ہے، امام(عج) کی جانب سے ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر تصریح ہے اوراس شبہے کا ازالہ کرتی ہے کہ یہ خطوط نواب اربعہ یا ان کے وکلا کی طرف سے جاری ہوئے ہیں،جو توقیعات غیبت صغری میں صادر ہوئی ہیں ان میں اعجاز اور خرق عادت کا عنصر نمایاں تھا؛ چنانچہ توقیعات بجائے خود امام زمانہ(عج) کی امامت کے دلائل کے زمرے میں آتی ہیں۔
[11] بحارالانوار ج 51،ص356/ تاريخ الغيبة، ج. 1، ص. 411/دانشنامہ امام مہدی(عج)ج3ص356
[12] جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص196
[13] بحر العلوم، الفوائد الرجالية، ج4، ص 127، فائدة 13
[14] الخوئي، معجم رجال الحديث، ج6، ص257، رقم 3406
[15] المامقاني، تنقيح المقال، ج22، ص، 75، رقم 6099