logo-img
رازداری اور پالیسی
post-img

مولا علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے ہاتھوں فتح خیبر

24 رجب المرجب 7 ھ ق

فاتح خیبر امیر المؤمنین حضرت امام علی (علیہ السلام)

 24 رجب المرجب 7 ہجری قمری میں امیر المؤمنین حضرت امام علی (علیہ السلام) نے جنگ خیبر میں قلعہ خیبر فتح کیا، فتح خیبر صلح حدیبیہ کے چند ماہ بعد واقع ہوئی تھی۔

جنگ خیبر کے محرکات

یہ جنگ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سےبرپا ہوئی تھی، 4 ہجری کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے یہودیوں کو خیانت کے جرم میں مدینہ سے نکال دیا تھا، حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق اور کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق سمیت بعض یہودی خیبر اور دیگر شہروں میں چلے گئے تھے، اور اگلے سال مکہ چل گئے، اور قریش کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ پر اکسایا[1]۔ یوں خیبر نو بنیاد اسلامی امت کےخلاف سازشوں کی آماجگاہ اور خطرے کی علامت بن گیا۔[2]
ماہ شعبان سنہ 6 ہجری میں بھی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو معلوم ہوا کہ خیبر کے عرب پڑوسی قبیلے "بنو سعد بن بکر" نے خیبر کے یہودیوں کے لئےاکٹھ کیا ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ان کی طرف حضرت علی (علیہ السلام)کی قیادت میں ایک جماعت کوروانہ کیا، امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) نے حملہ کیا، تو مذکورہ قبیلے کے جنگجوؤں نے میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا، پھر اسی سال کے ماہ رمضان میں عبداللہ بن عتیک کی قیادت میں ایک سریہ کے دوران پیغمبر اکرم کے خلاف مختلف اسلام مخالف دھڑوں کو اکسانے والے سلام بن ابی الحقیق کو ہلاک کیا گیا، اسی زمانے میں عبد اللہ بن رواحہ کو معلومات لینے کی غرض سے خیبربھیجا گیا۔[3]
بعدازاں خیبر کے یہودیوں نے اُسَیر بن زارِم/ یُسَیر بن رِزام کو امیر بنایا، اور اس نے قبیلہ غطفان سمیت عرب قبائل کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے خلاف اکسایا اور ان کے تعاون سے مدینہ پر حملہ کرسکے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شوال سنہ 6 ہجری میں ایک بار پھر عبداللہ بن رواحہ کو کچھ سپاہی دے کر خیبر روانہ کیا، اور جنگ کے نتیجے میں اُسَیر سمیت بعض یہودی مارے گئے۔[4]
علاوہ ازیں، بنو قریظہ کو مدینہ سے نکالے جانے، شہر میں امن و سکون کی بحالی اور دیگر یہودیوں کے ساتھپیغمبر اکرم کے معاہدہ صلح منعقد ہونے کے بعد، خیبر کے یہودی جو بنو نضیر کےیہودیوں کو بھی اپنے ہاں بسائے ہوئے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انتقام لینے کے درپے تھے، اور اپنی دولت کو طاقتور قبیلے "غطفان سمیت پڑوسی عرب قبائل کو پیغمبر اکرم کے خلاف بھڑکانےکے لئے صرف کررہے تھے، تاکہ انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنی صفوں میں لا سکیں، یہودیوں کا بار بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں، ہرزہ رسائی، جسارتیں کرنا،اور قبائل کو نبی کریم اور امت مسلمہ کے خلاف بھڑکانا ہی اس امر کے لیے کافی تھا کہ پیغمبر اکرم صلح حدیبیہ کے کچھ ہی عرصہ بعد خیبر پر حملہ کرتے۔

فتح قلعہ مرحب در دست علی (علیہ السلام)

سیرہ حلبی میں پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت منقول ہے کہ جب جنگ خیبر میں شیخین جناب ابوبکر و جناب عمر مسلسل دشمن کے خوف و ڈر سے بھاگتے رہے، تب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کل میں علم اس کو دوں گا کہ جو خدا اور رسول کودوست رکھتا ہوگا،اور خداو رسول اس کو دوست رکھتے ہونگے، مردہوگا کرار ہوگا، فرار نہ ہوگا (یعنی جم کر لڑنے والا ہوگا بھاگنے والا نہ ہوگا) اور اس کے ہاتھوں کامیابی و فتح حاصل ہوگی، اس کے بعد اگلے روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے علی (علیہ السلام) کو بلایا، جب کہ آپ (علیہ السلام) چشم آشوب میں مبتلا تھے،رسول خدا نے اپنا لعاب دہن علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں لگایا، اور فرمایا اس علم کو لو اور دشمن کی طرف جاؤ، خدا وند متعال آپ کو فتح و کامرانی عطا فرمائے۔[5]
حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، قال: كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر وكان به رمد، فقال: انا اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخرج علي فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لاعطين الراية او لياخذن الراية غدا رجلا يحبه الله ورسوله" , او قال:" يحب الله ورسوله يفتح الله عليه" , فإذا نحن بعلي وما نرجوه، فقالوا: هذا علي فاعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم الراية ففتح الله عليه[6](ترجمہ:ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے بیان کیا کہ علی غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ بوجہ آنکھ دکھنے کے نہیں آ سکے تھے، پھر انہوں نے سوچا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہو سکوں! چنانچہ گھر سے نکلے اور آپ کے لشکر سے جا ملے، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: کل میں ایک ایسے شخص کو عَلم دوں گا یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یوں فرمایا کہ کل) ایک ایسا شخص عَلم کو لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت ہے یا آپ نے یہ فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائے گا، اتفاق سے علی آ گئے، حالانکہ ان کے آنے کی ہمیں امید نہیں تھی لوگوں نے بتایا کہ یہ ہیں علی، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عَلم انہیں دے دیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرا دیا)۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فروہ بن عمرو بیاضی کو خیبر کے جنگی غنائم کی حفاظت پر مامور کیا (جو شقّ، نطاۃ اور کتیبہ کے قلعوں سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے) اور فرمایا: اگر کسی نے ان اموال سے سوئی یا دھاگا تک بھی اٹھایا ہے، واپس کردے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنائم کو 5 حصوں میں تقسیم کیا؛ ایک حصہ جو سہم اللہ (خمس) تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اٹھایا، اور اس میں سے اپنی زوجات، اہل بیت (یعنی علی (علیہ السلام)، اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بنو عبدا المطلب بن ہاشم بن عبد مناف، بنو مطلب بن عبد مناف اور بعض صحابہ، ایتام اور حاجتمندوں کی مدد فرمائی اور باقی 4 حصوں کو فروخت کردیا۔[7]
فتح مکہ کی مناسبت سے حسان بن ثابت کے اشعار ہیں :
وكان علىّ أرمد العين يبتغى *** دواء فلمّا لم يحسّ مداويا
شفاه رسول اللّه منه بتفلة *** فبورك مرقيّا و بورك راقيا
وقال سأعطى الرّاية اليوم صارما *** كميّا محبّا للإله مواليا
يحبّ الإله والإله يحبّه *** به يفتح اللّه الحصون الأوابيا
فاصفی بها دون البرية كلها *** عليا وسماه الوزير المواخيا
ترجمہ:اور علی (علیہ السلام) کو آشوب چشم میں مبتلا تھے، شفا کے لیے علاج کے خواہاں تھے، ليکن طبيب نہيں مل رہا تھا، اور بالآخر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اپنے مبارک آب دہن سے آپ (علیہ السلام) کی آنکھوں کو شفا بخشی، پس طبیب کو مبارک اور شفا یاب مریض کو بھی مبارکاور پیغمبر اکرم نے فرمايا: "ميں آج (يوم خيبر) پرچم ايسے جوان مرد کو دے رہا ہوں جو کاٹ دینے والی تلوار کا مالک اور مرد شجاع ہے؛ اللہ سے محبت کرنے والا اور اس کے احکام کا پیرو ہے، اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور اسی کے ہاتھوں اللہ تعالی قلعے فتح فرمائے گا، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس مہم جوئی کے لئے علی (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، انہیں اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا۔
ان پس پردہ محرکات کی روشنی میں یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ در حقیقت خیبر کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں تھی، کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اہل کتاب کو اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا،پس خیبر کی جنگ صرف اس لیے ہوئی تھی کہ یہودیوں نے اپنا معاہدہ توڑ دیاتھا، قرآن کریم میں اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح کی یقین دہانی کرا دی گئی تھی،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: .....وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا[8] وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً .....[9] (ترجمہ: .....اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔ اور وہ بہت سے غنیمتیں بھی حاصل کریں گے .....) قریبی فتح سے مراد فتح خیبرہے، کثیر مقدار میں غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے،چونکہ خیبر کی غنیمت وافر مقدار میں تھی اور یہ غنیمت صرف حدیبیہ میں حاضر لوگوں کے لیے مخصوص تھی۔


[1] الواقدی، المغازی، ج2، ص441-442/ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص201، 225/البلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص409
[2] التجانی، الترتیبات المالیة، ص93-94
[3] الواقدی، المغازی، ج2، ص526-563/ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص286-288 
[4] الواقدی، المغازی، ج2، ص566-568/ابن هشام، السیرة النبویة، ج4، ص266-267/ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص92 
[5] السیرة الحلبیہ2-737 السیرة النبویة (ابن ہشام) :3-797 مسند احمد :1-99 الاحادیث المختارہ 2-275 فتح الباری :7-365مجمع الزوائد :9-124
[6] صحیح بخاری،ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان،حدیث نمبر 3702 
[7] الواقدی، المغازی، ج2، ص 696 تا 680 696۔ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص363تا366۔ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص107-108۔ابن زنجویه، کتاب الاموال، ج1، ص187۔
[8] سورۃ فتح،آیت 18
[9] سورۃ فتح آیت19