تحویلِ قبلہ کا عظیم واقعہ
تحویلِ قبلہ کا عظیم واقعہ
بعثت نبوی سے مسلمانوں کا قبلہ "بیت المقدس" رہا ہے، یہودی رو بہ بیت المقدس عبادت بجا لاتےتھے، پھر تیرہ سال تک مسلمانوں کا قبلہ بھی یہی رہا، اور وہ بھی اپنی نمازیں اور دیگر ایسے اموراسی رخ بجا لاتے رہے جن میں رو بہ بیت المقدس ہونا شرط تھا۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ تحویل قبلہ سے متعلق شیعہ و سنی کتب روایات ماسوائے اختلاف قلیل متن و مضمون کے لحاظ سے بڑی حد تک متقاربہ ہیں، اور وہ اختلاف یہ ہے کہ تحویل قبلہ کا واقعہ کب رونما ہوا!، ان روایات میں سے اکثر و بیشتر یہ بتاتی ہیں کہ تحویلِ قبلہ کا یہ واقعہ ماہِ رجب، سنہ ۲ ھ میں ہوا، یعنی ہجرت کے سترہ ماہ بعد، اور یہی روایات سب سے زیادہ صحیح بھی ہیں۔ (تفسیرالمیزان جلد اول ص ۳۳۱)
جہاں تحویل قبلہ ہوا، اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف رخ موڑنے کا حکم دیا گیا وہ مدینہ میں واقع مسجد بنی سالم ہے۔
سبب تحویل قبلہ
مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ آباد ہوئے تو چونکہ بیت المقدس کی طرف رُخ کرتے ہوئے اپنی عبادت بجا لاتے تھے، مدینے کے یہودیوں کی طرف سے طعن و طنز کا سلسلہ شروع ہوا، اور وہ کہنے لگےکہ: اسلام کے پاس کوئی اصلی دستور نہیں ہے اور یہ ہمارے قبلہ رخ ہو کر عبادت کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو ان کے طعنے گراں گزرتے، اور جب آپ کے لیے یہودیوں کی طعنہ زنی ناقابل برداشت ہوئی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے مسلمانوں کے لیے کعبہ کے قبلہ ہونے کی آرزو کی، پس آیت تحویل قبلہ نازل ہوئی، مفسرین آیت قبلہ کے نزول کا وقت ہجرت کے بعد چھ سے لے کر انیس مہینوں کے درمیان ذکر کرتے ہیں۔ آیت قبلہ کے مقام نزول میں اختلاف کی بنا پر درج ذیل تین مقامات میں سے کوئی ایک ہے: مسجد ذو قبلتین، مسجد قبیلہ (بنی سالم بن عوف) اور مسجدالنبی
مفسرین کے مطابق: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ سلم) کے نزدیک محبوب ترین قبلہ کعبہ تھا، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے یہودیوں کےقبلہ کے علاوہ کوئی اور قبلہ مقرر فرمائے،توجبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا: میں آپ جیسا بندہ ہوں، اور آپ خداوند متعال کو مجھ سے زیادہ محبوب ہیں، آپ از خود اللہ کی بارگاہ میں اس خواہش کا اظہار کریں، اور دعا کریں کہ آپ کو وہ عطا کیا جائے جو آپ چاہتے ہیں۔ آپ نے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۪ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ۔"
ترجمہ: ہم آپ کو بار بار آسمان کی طرف منہ کرتے دیکھ رہے ہیں، سو اب ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو اور اہل کتاب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق پر مبنی (فیصلہ)ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ (البقرة 144)
شاید دوران نماز تحویل قبلہ کا حکم اور ایسے دیگر امور کی حکمت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزمانا چاہتا تھا، اور عبادی امور میں مؤمنوں کو دوسرے مذاہب کے ہے پیروکاروں جیسے یہود اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں پر نمایاں کرنا چاہتا تھا،جو ظاہراً مسلمان ہونے کے دعویدار تھے، لیکن حقیقت میں اور دل سے خدا کے احکام اور اس کے برگزیدہ رسول کے احکام کے پابند نہیں تھے۔
ارشاد ہوتا ہے: "وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ"۔
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں اور آپ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کرتے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم رسول کی اتباع کرنے والوں کو الٹا پھر جانے والوں سے پہچان لیں اور یہ حکم اگرچہ سخت دشوار تھا مگر اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے (اس میں کوئی دشواری نہیں) اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، اللہ تو لوگوں کے حق میں یقینا بڑا مہربان، رحیم ہے۔ (البقرہ 143)
منابع:
قرآن کریم
تفسیر الکوثر
تفسیر المیزان(الطبابائی)
مجمع البیان فی تفسیر القرآن (الطبرسی)