post-img

مقام و فضائل حضرت معصومہ (س)

مقام و فضائل حضرت معصومہ (س)

مقدمہ

حضرت معصومہ (س) شیعوں کے ساتویں امام موسی کاظم (علیہ السلام )کی دختر نیک اختر ہیں۔ اس بی بی کے خاندانی فضائل، شرافت اور عظمت کے علاوہ اپنے ذاتی بھی بہت سے فضائل اور کرامات ہیں۔ شيخ عباس قمی نے لکھا ہے کہ: وہ روایات جو ہمارے لیے نقل ہوئی ہیں، انکے مطابق امام کاظم (علیہ السلام) کی بیٹیوں میں سے سب سے افضل سيده جليلہ معظمہ، حضرت فاطمہ معصومہ (س) ہیں۔[1]
پہلی فضيلت: حضرت معصومہ (س) کے زائرین کا جنت کا حقدار ہونا
شیعہ کتب میں مذکورہ روایات کے مطابق جو بھی حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو اسکی جزاء جنت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ان روایات میں سے بعض میں آیا ہے کہ
بی بی معصومہ (س) کی زیارت کرنے والا نہ فقط یہ کہ وہ جنت جانے کا مستحق ہو گا، بلکہ جنت جانا اس پر واجب ہو جائے گا۔
ان روایات میں سے بعض کی عبارت ایسے نقل ہوئی ہے:
پہلی روايت (صحيح السند)
حَدَّثَنَا أَبِي ومُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالا حَدَّثَنَا عَلِي بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع عَنْ زِيارَةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع فَقَالَ مَنْ‏ زَارَهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ۔
سعد بن سعد نے کہا ہے کہ: میں نے امام رضا(علیہ السلام) سے امام موسی ابن جعفر (علیھما السلام )کی بیٹی فاطمہ کی قبر کی زیارت  کے بارے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ: جو بھی ان کی زیارت کرے گا، اس کا مقام جنت ہے ۔[2]
دوسری روايت:
حَدَّثَنِي أَبِي وأَخِي والْجَمَاعَةُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِدْرِيسَ وغَيرِهِ عَنِ الْعَمْرَكِي بْنِ عَلِي الْبُوفَكِي عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنِ ابْنِ الرِّضَا ع قَالَ: مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَّتِي بِقُمَ‏ فَلَهُ‏ الْجَنَّة۔
امام جواد سے روایت نقل ہوئی ہے کہ: جو بھی میری پھوپھی کی شہر قم میں زیارت کرے گا، اسکی جزا جنت ہے۔[3]
تیسری روايت:
تَارِيخُ قُمَّ لِلْحُسَينِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُمِّي بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّادِقِ (علیہ السلام) قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وهُوَ مَكَّةُ ولِرَسُولِهِ حَرَماً وهُوَ الْمَدِينَةُ ولِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَرَماً وهُوَ الْكُوفَةُ ولَنَا حَرَماً وهُوَ قُمُّ وسَتُدْفَنُ فِيهِ امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِي تُسَمَّى فَاطِمَةَ مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. وبِسَنَدٍ آخَرَ عَنْهُ ع‏ أَنَّ زِيارَتَهَا تَعْدِلُ الْجَنَّة.
حسين بن محمد قمی نے اپنی کتاب تاریخ قم میں اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق (علیہ السلام ) سے روایت کی ہے کہ: مکہ خداوند کا حرم ہے، مدینہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حرم ہے، کوفہ امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کا حرم ہے، اور قم ہم اہل بیت (علیھم السلام) کا حرم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے ایک خاتون اس سر زمین میں دفن ہو گی کہ اسکا نام فاطمہ ہے، جو بھی اسکی زیارت کرے گا، جنت اس پر واجب ہو جائے گی۔
مؤلف نے ایک دوسری سند کے ساتھ امام صادق(علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ: فاطمہ معصومہ کی زیارت جنت کے برابر ہے۔[4]
چوتھی روايت:
رَأَيتُ فِي بَعْضِ كُتُبِ الزِّيارَاتِ حَدَّثَ عَلِي بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ‏ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عَلِي بْنِ مُوسَى الرِّضَا (علیہ السلام) قَالَ قَالَ: يا سَعْدُ عِنْدَكُمْ لَنَا قَبْرٌ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَبْرُ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُوسَى (علیہ السلام) قَالَ نَعَمْ مَنْ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ۔
علامہ مجلسی نے ذکر کیا ہے کہ: میں نے زیارت کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ علی ابن ابراھيم نے اپنے والد سے اور اس نے سعد سے اور اس نے امام رضا (علیہ السلام) سے روايت کی ہے کہ: امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ: اے سعد، تمہارے پاس ہم اہل بیت کی ایک قبر موجود ہے۔ سعد نے کہا کہ: میں آپ پر قربان جاؤں، کیا آپکی مراد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی بیٹی فاطمہ کی قبر ہے؟ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں، جو بھی ان کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے گا، اسکی جزا جنت ہے۔[5]
دوسری فضيلت: مقام شفاعت حضرت معصومہ (س)
بعض روایات کی روشنی میں حضرت معصومہ (س) شفاعت کے بلند مقام پر بھی فائز ہیں۔ مذکورہ بالا روایات سے کہ جن میں بی بی معصومہ کی زیارت کا ثواب جنت میں جانا ذکر ہوا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ بی بی معصومہ(س) کا اپنے زائرین کی شفاعت کر کے انکو جنت میں لے جانا، بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے کہ بی بی معصومہ عملی طور پر شفاعت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ فقط اپنے زائرین کی شفاعت کرنے کی صلاحیت رکھتیں ہیں، بلکہ بی بی کا اپنے زائرین کی شفاعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زائرین کا بی بی کی شفاعت سے استفادہ کرنے کا زیادہ حق ہے، اس لیے کہ بی بی معصومہ کے زائرین نے سختیاں، مشکلات برداشت کر کے اور اپنی جان کو خطروں میں ڈال کر انکی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے، اس لیے انکا زیادہ حق ہے کہ وہ بی بی کی شفاعت سے بہرہ مند ہوں، ورنہ بی بی کی شفاعت کا دائرہ بہت وسیع ہے کہ جو تمام کائنات کے شیعوں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور بی بی معصومہ (س) کی ذات ان تمام شیعوں کی شفاعت کرنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھتیں ہیں۔
بی بی معصومہ(س) کے مقام شفاعت پر فائز ہونے کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ یہاں پر ہم صرف دو روایات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔
(الف) حضرت معصومہ (س) کا معروف زیارت نامہ
علامہ مجلسی کی نقل کے مطابق بی بی کا زیارت نامہ بعض کتابوں میں علی ابن ابراہیم سے اور اس نے اپنے والد ابراہيم ابن ہاشم اور اس نے سعد سے اور اس نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ زیارت نامے کی عبارت درجہ ذیل ہے:
رَأَيتُ فِي بَعْضِ كُتُبِ الزِّيارَاتِ حَدَّثَ عَلِي بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ‏ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عَلِي بْنِ مُوسَى الرِّضَا (علیہ السلام) قَالَ قَالَ: يا سَعْدُ عِنْدَكُمْ لَنَا قَبْرٌ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَبْرُ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُوسَى (علیہ السلام) قَالَ نَعَمْ مَنْ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ فَإِذَا أَتَيتَ الْقَبْرَ فَقُمْ عِنْدَ رَأْسِهَا مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ وَ كَبِّرْ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَ سَبِّحْ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَ احْمَدِ اللَّهَ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً ثُمَّ قُلِ يا فَاطِمَةُ اشْفَعِي لِي فِي الْجَنَّةِ فَإِنَّ لَكِ عِنْدَ اللَّهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لِي بِالسَّعَادَةِ فَلَا تَسْلُبَ مِنِّي مَا أَنَا فِيهِ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لَنَا وَ تَقَبَّلْهُ بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ وَبِرَحْمَتِكَ وَ عَافِيتِكَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ وَ سَلَّمَ تَسْلِيماً يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔
میں نے زیارت کی بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ علی ابن ابراہیم نے اپنے والد ابراہيم ابن ہاشم اور اس نے سعد سے اور اس نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ: اے سعد، تمہارے پاس ہم اہل بیت کی ایک قبر موجود ہے۔ سعد نے کہا کہ: میں آپ پر قربان جاؤں، کیا آپکی مراد امام موسی کاظم کی بیٹی فاطمہ کی قبر ہے؟ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں، جو بھی اسکی زیارت کرے گا، اسکی جزا جنت ہو گی۔
پھر جب قبر کے نزدیک ہو تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو جاؤ، 34 مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ سبحان الله اور 33 مرتبہ الحمد لله کہو، پھر کہو کہ: اے فاطمہ معصومہ جنت میں جانے کے لیے میری شفاعت فرمائیں، کیونکہ آپکے لیے خداوند عالم کی بارگاہ میں عظیم مرتبہ ومنزلت ہے۔ خداوندا! میں آپ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ سعادت اور خیر پر فرمانا اور مجھ سے میرے اس عقیدے اور ایمان کو سلب نہ فرمانا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ. خدايا میری دعاؤں کو قبول فرما اور اپنے درود وسلام کو محمد وآل محمد پر نازل فرما۔ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين.[6]
(ب) روايت امام صادق (علیہ السلام)
قاضی نور الله شوشتری نے كتاب مجالس المؤمنين میں امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:
روي عن الصادق (عليه السلام) أنه قال: إن لله حرما وهو مكة، ألا إن لرسول الله حرما وهو المدينة، ألا وإن لأمير المؤمنين حرما وهو الكوفة، ألا وإن قم الكوفة الصغيرة ألا إن للجنة ثمانية أبواب ثلاثة منها إلى قم، تقبض فيها امرأة من ولدي اسمها فاطمة بنت موسى، وتدخل بشفاعتها شيعتي الجنة بأجمعهم۔
اس بارے میں امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ: مکہ خداوند کا حرم، ہے، مدینہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حرم، ہے، کوفہ امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کا حرم ہے، اور قم ہم اہل بیت کا حرم ہے۔
قم ایک چھوٹا کوفہ شمار ہوتا ہے، جنت کے آٹھ دروازے ہیں کہ ان میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں، (یعنی اس بی بی کی زیارت اور اس شہر سے پھیلے ہوئے علم کی وجہ سے بہت سے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے) پھر امام (علیہ السلام) نے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک خاتون کہ جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہو گا، اس شہر قم میں دفن ہو گی اور ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔[7]
تیسری فضيلت: حضرت معصومہ (س) کا محدثہ ہونا
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مبارک نام نے بہت سی روایات کی سند کو زینت بخشی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وہ روایات کہ جو بی بی معصومہ (س) سے نقل ہوئی ہیں، وہ اعتقادات اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کی امامت کے بارے میں ہیں اور ان روایات میں اہل بیت (علیہم السلام) اور شیعوں کے مقام ومنزلت کو بیان کیا گیا ہے۔
اول: حديث غدير ومنزلت۔
[رواية ست فواطم إحداهن عن الأخرى] أخبرنا ابن عم والدي القاضي أبو القاسم عبدالواحد بن محمد بن عبدالواحد المديني بقراءتي عليه في منزلي هنا أنبأنا ظفر بن راعي العلوي باستراباذا أنبأنا والدي وأبو أحمد بن مطرف المطرفي قالا أنبأنا أبو سعد الإدريسي إجازة فيما أخرجه في تاريخ استراباذ حدثني محمد بن الحسن الرشيدي من ولد هارون الرشيد بسمرقند وما كتبناه إلا عنه حدثنا أبو الحسن محمد بن جعفر الحلواني حدثنا علي بن محمد بن جعفر الأهوازي مولى الرشيد حدثنا بكر بن أحمد البصري حدثتنا فاطمة بنت علي بن موسى الرضى حدثتني فاطمة وزينب وأم كلثوم بنات موسى بن جعفر قلن حدثتنا فاطمة بنت جعفر بن محمد الصادق قالت حدثتني فاطمة بنت محمد بن علي حدثتني فاطمة بنت علي بن الحسين حدثتني فاطمة وسكينة ابنتا الحسين بن علي عن أم كلثوم بنت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فاطمة بنت رسول الله صلي الله عليه وآله قالت: أنسيتم قول رسول الله (صلي الله عليه وآله) يوم غدير خم من كنت مولاه فعلي مولاه وقوله عليه السلام لعلي أنت مني بمنزلة هارون من موسى (عليهما السلام).
مؤلف نے اپنے سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: حضرت فاطمہ معصومہ (سلام الله عليها) نے زينب وام کلثوم  سے کہ جو امام کاظم (عليہ السلام) کی بیٹیاں ہیں، انھوں نے فاطمہ بنت امام صادق (عليہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام باقر عليہ (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام سجاد (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ و سكينہ بنت امام حسين (علیہ السلام) سے، انھوں نے ام كلثوم بنت فاطمہ‌ زہرا (سلام الله عليها) سے اور انہوں نے اپنی والدہ فاطمہ زہرا (سلام الله عليہا) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: کیا تم نے غدیر خم میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو بھلا دیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کا علی مولا ہے ؟، اور یہ قول کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا کہ: تیری نسبت مجھ سے ایسی ہے، جیسے ہارون کی موسی کے ساتھ تھی۔[8]
دوم: محبت آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اللؤلؤة المثنية في الآثار المعنعنة المروية: روى السيد محمّد الغماري الشافعي في كتابه: عن فاطمة بنت الحسين الرضوي عن فاطمة بنت محمّد الرضوي عن فاطمة بنت إبراهيم الرضوي عن فاطمة بنت الحسن الرضوي عن فاطمة بنت محمّد الموسوي عن فاطمة بنت عبد اللّه العلوي عن فاطمة بنت الحسن الحسيني عن فاطمة بنت أبي هاشم الحسيني عن فاطمة بنت محمّد بن احمد بن موسى المبرقع عن فاطمة بنت أحمد بن موسى المبرقع عن فاطمة بنت موسى المبرقع عن فاطمة بنت الامام أبي الحسن الرضا عليه السّلام عن فاطمة بنت موسى بن جعفر (عليهما السّلام) عن فاطمة بنت الصادق جعفر بن محمّد (عليهما السّلام) عن فاطمة بنت الباقر محمّد بن علي (عليهما السّلام) عن فاطمة بنت السجاد علي بن الحسين زين العابدين (عليه السّلام) عن فاطمة بنت أبي عبد اللّه الحسين (عليه السّلام) عن زينب بنت أمير المؤمنين عليه السّلام عن فاطمة بنت رسول اللّه (صلّى اللّه عليه وآله)، قالت: قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه وآله) «ألا من مات على حب آل محمد مات شهيدا»
غماری شافعی نے اپنی کتاب میں فاطمہ بنت حسين سے، انہوں نے فاطمہ بنت محمد سے، انہوں نے فاطمہ بنت ابراہيم سے، انہوں نے فاطمہ بنت حسن سے، انہوں نے فاطمہ بنت محمد موسوی سے، انہوں نے فاطمہ بنت عبد الله سے، انہوں نے فاطمہ بنت محمد بن احمد بن موسی مبرقع سے، انہوں نے فاطمہ بنت احمد بن موسی مبرقع سے، انہوں نے فاطمہ بنت موسی مبرقع سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام رضا (علیہ السلام) سے، اس نے فاطمہ معصومہ بنت امام کاظم (علیہ السلام) سے، انھوں نے فاطمہ بنت امام صادق (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام باقر (علیہ السلام) سے، اس نے فاطمہ بنت امام سجاد (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام حسين (علیہ السلام) سے، انہوں نے زينب بنت امام علی (علیہ السلام) سے، انھوں نے فاطمہ زہرا بنت رسول خدا (صلی الله عليہ و آلہ و سلم) سے، اور بی بی زہرا (علیھا السلام)نے اپنے والد محترم سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ: جو بھی دل میں آل محمد کی محبت لے کر دنیا سے جاتا ہے تو وہ شہید کی موت اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔[9]
سوم: فضائل شيعان امام علی (عليہ السلام)
[كِتَابُ الْمُسَلْسَلَاتِ] حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِي بْنِ الْحُسَينِ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ زِيادِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِي الْعُرَيضِي قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خَلِيلٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِي بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْأَهْوَازِي قَالَ حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ أَحْنَفَ قَالَ حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِي بْنِ مُوسَى الرِّضَا (علیہ السلام) قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وَ زَينَبُ وَ أُمُّ كُلْثُومٍ بَنَاتُ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ (علیہ السلام) قُلْنَ حَدَّثَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (علیہ السلام) قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِي (علیہ السلام) قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَلِي بْنِ الْحُسَينِ (علیہ السلام) قَالَتْ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ وَ سُكَينَةُ ابْنَتَا الْحُسَينِ بْنِ عَلِي (علیہ السلام) عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِي (علیہ السلام) عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) يقُولُ‏ لَمَّا أُسْرِي بِي إِلَى السَّمَاءِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ دُرَّةٍ بَيضَاءَ مُجَوَّفَةٍ وَ عَلَيهَا بَابٌ مُكَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَ الْياقُوتِ وَ عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى الْبَابِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‏ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَلِي وَلِي الْقَوْمِ وَ إِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى السِّتْرِ بَخْ بَخْ مِنْ‏ مِثْلِ‏ شِيعَةِ عَلِي‏ فَدَخَلْتُهُ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ عَقِيقٍ أَحْمَرَ مُجَوَّفٍ وَ عَلَيهِ بَابٌ مِنْ فِضَّةٍ مُكَلَّلٍ بِالزَّبَرْجَدِ الْأَخْضَرِ وَ إِذَا عَلَى الْبَابِ سِتْرٌ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا مَكْتُوبٌ عَلَى الْبَابِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَلِي وَصِي الْمُصْطَفَى
مؤلف نے اپنے سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: حضرت فاطمہ معصومہ (سلام الله عليها) اور زينب وام کلثوم کہ جوامام کاظم (علیہ السلام) کی بیٹیاں ہیں، انہوں نے فاطمہ بنت امام صادق (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام باقر (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ بنت امام سجاد عليہ (علیہ السلام) سے، انہوں نے فاطمہ وسكينہ بنت امام حسين (علیہ السلام) سے، انہوں نے ام كلثوم بنت فاطمہ‌ زہرا (سلام الله) عليها سے اور انہوں نے اپنی والدہ فاطمہ زہرا (سلام الله) عليها سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ: اس رات کو  جب مجھے معراج پر لے جایا گیا، میں جنت میں داخل ہوا، وہاں میں نے سفید موتیوں کا ایک گھر دیکھا کہ جو درمیان سے خالی تھا۔ اس گھر کا دروازہ موتیوں اور یاقوت سے سجا ہوا تھا اور اس پر ایک پردہ تھا، جب میں نے اپنے سر کو بلند کیا تو دیکھا کہ اس پر لکھا ہوا تھا، لا الہ الا الله محمد رسول الله على ولى القوم، اور پردے پر لکھا ہوا تھا کہ: واہ واہ کون علی کے شیعوں کی طرح ہو سکتا ہے۔ جب میں داخل ہوا تو سرخ عقیق سے بنا ہوا ایک محل دیکھا کہ وہ بھی درمیان سے خالی تھا، اس محل کا بھی ایک دروازہ تھا کہ جس پر زبرجد سے مزین ایک پردہ لگا ہوا تھا، جب میں نے اپنے سر کو بلند کیا تو میں نے دیکھا کہ اس پر لکھا ہوا تھا،
محمّد رسول الله، علی وصی المصطفی۔[10]
نتيجہ:
مذکورہ تمام مطالب حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے فضائل کے بحر بیکراں کا ایک قطرہ تھا، جو یہاں پر ذکر کیا گیا۔ ان فضائل میں اس پاک معصومہ (س) کے بعض مقامات اور فضائل کی طرف اشارہ کیا گیا۔ ان فضائل میں زیارت کرنے والے کا جنت کا مستحق ہونا، تمام شیعیان کی شفاعت کرنا، محدثہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ انشاء اللہ دعا ہے کہ ہم سب شیعان کو اس پاک معصومہ قم (س) کی معرفت کے ساتھ بار بار زیارت نصیب ہو اور وہ پاک بی بی ہم سب سے دنیا اور آخرت میں راضی اور خوش بھی ہوں۔
 
 
 
[1] قمي، شيخ عباس، منتهي الامال، ص 975.
[2]القمي، ابي جعفر الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (متوفیٰ381هـ)، عيون أخبار الرضا عليه السلام ج 1 ص 299، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت لبنان، سال چاپ: 1404 1984 م.
[3] القمي، أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه (متوفیٰ367هـ)، كامل الزيارات، ص 536، تحقيق: الشيخ جواد القيومي، لجنة التحقيق، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأول 1417هـ۔
[4] حسن بن محمد بن حسن قمى، تاريخ قم (فارسي)، ص 215، مترجم: حسن بن على بن حسن بن عبد الملك قمى سال 805 806، تحقيق: سيد جلال الدين طهرانى۔
المجلسي، محمد باقر (متوفیٰ 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 99 ص 267، ناشر: دار إحياء التراث العربي بيروت لبنان.
بحار الانوار ج60 ص 288
بحار الانوار، ج 48، ص 317
مستدرک سفينة البحار، ص 596
[5] المجلسي، محمد باقر (متوفیٰ 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 99 ص 266، تحقيق: محمد مهدي السيد حسن الموسوي الخرسان، السيد إبراهيم الميانجي، محمد الباقر البهبودي، ناشر: دار إحياء التراث العربي بيروت لبنان۔
[6] المجلسي، محمد باقر (متوفیٰ 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 99 ص 266، تحقيق: محمد مهدي السيد حسن الموسوي الخرسان، السيد إبراهيم الميانجي، محمد الباقر البهبودي، ناشر: دار إحياء التراث العربي بيروت لبنان۔
[7] التستري، قاضي نور الله (متوفیٰ 1019 هـ.ق)، مجالس المؤمنين ج1، ص 168، ناشر: دار هشام.
بحار الانوار ج60 ص 288
بحار الانوار، ج 48، ص 317
مستدرک سفينة البحار، ص 596
[8] نزهة الحفاظ، ج 1 ص 101، اسم المؤلف: محمد بن عمر الأصبهاني المديني أبو موسى الوفاة: 581، دار النشر: مؤسسة الكتب الثقافية بيروت 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرضى محمد عبد المحسن۔
[9] بحراني اصفهاني، عوالم العلوم والمعارف والأحوال من الآيات والأخبار والأقوال - مستدرك سيدة النساء إلى الإمام الجواد، ج‏21- ص: 355
[10] المجلسي، محمد تقي (متوفي1070هـ)، بحار الأنوار، ج 65 ص 76