غزوہ بنی مصطلق 19 شعبانِ معظم 5 ھجری

غزوہ بنی مصطلق 19 شعبانِ معظم 5 ھجری

تاریخِ اسلام میں سن ۵ ہجری 19 شعبانِ معظم [1] کو غزوۂِ مُرَیسِیع واقع ہوئی اس ہی کو غزوۂ بنی مصطلق کہا جاتا ہے۔
مریسیع ایک کنویں کا نام ہے جہاں بنی مصطلق آکر اترتے تھے جبکہ وہ مکہ مدینہ کے درمیان قدید اور بدر کے علاقے میں بنی خزاعہ کا پانی تھا [2]۔
اس غزوہ کو غزوہ بنی مصطلق کہنے کا سبب یہ ہے کہ مُصطلق جذیمہ بن سعد کا لقب ہے یہ قبیلۂ بنی خزاعہ کی ایک شاخ ہے، اس قبیلہ کا سردار اور قائد حارث بن ابی ضرار تھا۔
اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ حارث بن ابی ضرار نے رسول خدا اللہ (صلیٰ اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے ایک جماعت کو اپنے ساتھ کر لیا تھا۔

مسلمانوں کے لشکر کا خروج!

جب پیغمبر اکرم (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) کو یہ خبر ملی تو آپ (علیہ السّلام) نے لشکر تیار کیا اور پیر کے دن دوسری شعبان کو مدینہ سے چلے، تاریخ نے لکھا:
فَخَرَجَ مَعهُ سبعُ مأة و معهم ثلاثون فرسا منها عشرة للمهاجرين و عشرون للأنصار۔[3]
سات سو لوگوں کا لشکر لے کر رسول الله (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) روانہ ہوئے جن میں تیس گھوڑے شامل تھے دس مہاجرین کے اور بیس انصار کے۔
بعض مؤرخین کے مطابق مسلمانوں کے لشکر کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی۔
ازواج میں سے حضرتِ  ام سلمہ و عائشہ آپ (علیہ السّلام) کے ساتھ تھیں۔

کافر جنوں سے جنگ!

راستہ میں ایک خوفناک وادی میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔
جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول:
کا فر جنوں کی ایک جماعت اس وادی میں جمع ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ کے لشکر کو نقصان پہنچائیں۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کو بلایا اور فرمایا!
اِذْهَبْ إِلَى هَذَا اَلْوَادِي فَسَيَعْرِضُ لَكَ مِنْ أَعْدَاءِ اَللَّهِ اَلْجِنُّ مَنْ يُرِيدُكَ فَادْفَعْهُ بِالْقُوَّةِ اَلَّتِي أَعْطَاكَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ تَحَصَّنْ مِنْهُ بِأَسْمَاءِ اَللَّهِ اَلَّتِي خَصَّكَ بِعِلْمِهَا [4]
اے علی اس وادی میں جائیے تو آپ کے مقابلے میں جِنوں میں سے اللہ کے دشمن جن آئیں گے، انہیں اس قوّت سے دفع کر دینا جو اللہ عزوجل نے تمہیں عطا کی ہے اور اپنی حفاظت ان اسمائے الہی سے کرنا جن کا علم اللہ نے تمہارے ساتھ خاص کر دیا ہے۔[5]
حکمِ نبی (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) پر امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے جنوں سے جنگ کی اور ان پر فتح بھی حاصل کی۔
اس فتح کے بعد نبی اکرم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ) نے مریسیع کے علاقہ کا رُخ کیا وہاں پہنچے اور حارث اور اس کی قوم کے ساتھ جہاد کیا، شدید جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں صفوان جو کہ مشرکین کا علمبردار تھا، قتادہ کے ہاتھ سے مارا گیا اسی طرح مالک نامی ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت امیر المومنین (علیہ السّلام) کے ہاتھ سے قتل ہوا [6]۔
حارث کا لشکر بھاگ کھڑا ہوا مسلمانوں نے ان پر مل کر حملہ کیا اور ان کے دس آدمیوں کو زمین پر گرادیا، مسلمانوں میں سے فقط ایک آدمی شہید ہوا۔
بہر حال تین دن جنگ جاری رہی جبکہ کفار کا ایک گروہ مارا گیا، کچھ بھاگ گئے اور باقی اسیر ہوئے۔

قیدی خواتین کی رہائی!

وہ افراد جنہیں اسیر کیا گیا تھا ان میں 200 خواتین بھی شامل تھیں اس کے علاوہ دو ہزار اونٹ پانچ ہزار بھیڑ بکریاں مال غنیمت کے طور پر لشکر کو ملا۔
اسیر شدہ خواتین میں برّۃ بنت حارث بن أبی ضرار بھی شامل تھیں جو ثابت ابن قیس بن شماس کے حصے میں آئی تھیں۔
ثابت بن قیس نے ایک مکاتبۂ کنیز لکھا کہ یہ معین مال ادا کر کہ آزاد ہوسکتی ہیں۔
برۃ نامی کنیز کائنات کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں آئی اور کہا کہ آپ میری مدد کریں مجھے کنیزی سے آزادی دلوانے میں اگر مالی امداد کر دیں تو میں آزاد ہو جاؤں گی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے کہا۔
هَل لَكِ فِي خَيرٍ مِنْ ذالكَ؟
کیا میں اس سے بھی بہتر فیصلہ انجام دوں آپ کے لیئے؟
کہا: وہ کیا اے اللہ کے رسول؟
آپ (علیہ السّلام) نے فرمایا!
کیا میں ایسا نہ کروں کہ آزاد ہونے کی جو قیمت ہے وہ بھی کردوں اور آپ سے شادی بھی کرلوں؟
جب یہ سنا تو یہ فورا ہاں میں جواب دیا اور رضامند ہو گئیں۔
نبی کریم (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) نے ثابت بن قیس کو قیمت ادا کر کے آزاد کروا لیا اور پھر عقدِ نکاح پڑھنے کے بعد خاتون کا نام جویریہ رکھ دیا۔
اس بابرکت شادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ اس قبیلے کے سردار کی بیٹی رسول اللہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) کی زوجیت میں آگئیں ہیں تو کہنے لگے کہ: لايَليقُ بنٰا أن يَبقىٰ قومُ ضَجيعةِ رسول الله (صلى الله عليه وآله) في الأسر و الرق..
یہ تو بالکل مناسب نہیں ہے کہ زوجۂ رسول اللہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) کی قوم کی خواتین ہماری قید میں ہوں۔
لہذا بنی مصطلق کی تمام کی تمام خواتین یعنی دو سو قیدی عورتوں کو آزاد کردیا گیا، یہ سب اس شادی کی برکت سے ہوا۔
خود حضرتِ عائشہ کہتی ہیں کہ:
اپنی قوم والوں کے لیے جویریہ سے زیادہ بابرکت عورت میں نے نہیں دیکھی [7]۔
اس جنگ کے بعد بھی چار روز تک حضور (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) نے وہیں قیام فرمایا پھر واپس پلٹ کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔

[1] مواقیت الأهلة
[2] السیرۃ النبویۃ بنظر أھل البیت علیہم السّلام مؤلف الشیخ علی کورانی العاملی
[3] السيرة النبوية بنظرة أهل البيت شيخ علي كوراني
[4] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد ج ۱، ص ۳۳۹ 
[5] کتاب ارشاد شیخ مفید رح
[6] منتھی الامال للشیخ عباس قمی
[7] سنن ابی داؤد 2/235۔