شیعہ جن احادیث سے ائمہ اھل بیت (علیہم السلام) کی امامت، جانشینی، دینی پیشوائی پر استدلال کرتے ہیں ان میں سے ایک حدیث ثقلین ہے؛
پیغمبر اكرم (صلی الله عليه و آله وسلم) نے فرمایا:
"إني تارك فيكم الثقلين، ما أن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي: كتاب الله وعترتي أهل بيتي، فإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض"۔
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت اھل بیت، اگر ان دونوں کی پیروی کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، وہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔
یہ حدیث ایک طریق سے یوں نقل ہوئی ہے۔
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا بن نُمَيرٍ ثنا عبد الْمَلِكِ بن أبي سُلَيمَانَ عن عَطِيةَ العوفي عن أبي سَعِيدٍ الخدري قال قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم اني قد تَرَكْتُ فِيكُمْ ما ان أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بعدي الثَّقَلَينِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلي الأَرْضِ وعترتي أَهْلُ بيتي الا وانهما لَنْ يفْتَرِقَا حتی يرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ"۔
ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ ان میں سے ایک چیز دوسری سے رتبے و مقام میں بڑی ہے، ایک قرآن کریم اور دوسری میرے اہل بیت ہیں، اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے،وہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔[1]
ترمذی نے اپنی سنن اور طبرانی نے کتاب معجم الكبير، اور بعض دوسروں نے اسی حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:[2]
حديث ثقلين ان احادیث میں سے ایک ہےکہ جس کو شیعہ اور اہل سنت دونوں نے معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض نے اس کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے۔
اھل سنت کے بزرگوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ان میں سے بعض کے قول کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں؛
إبن كثير دمشقی سلفی کہ جو أهل بيت (عليهم السلام) کے خلاف ہمیشہ اپنی تلوار نیام سے باہر نکالے رہتا تھا اور ہر طرح سے ان کے فضائل کو چھپانے کے درپے رہتا تھا، وہ اپنی تفسیر میں اس روایت کے بارے میں لکھتا ہے۔
"و قد ثبت في الصحيح أن رسول الله صلی الله عليه و سلم قال في خطبته بغدير خم: "إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتي و إنهما لم يفترقا حتی يردا علي الحوض"
صحیح حدیث سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پیغمبر (صلي الله عليه و آلہ وسلم) نے غدير خم کے دن اپنے خطبے میں فرمایا: "میں دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت، یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرئے"۔[3]
اسی طرح "البداية و النهاية" میں واضح طور پر کہتا ہے:
"قال شيخنا أبو عبد الله الذهبي: و هذا حديث صحيح.[4]
ہمارے استاد ذھبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح سند ہے۔"
ناصر الدين الباني کہ جس کو بخاری عصر کہا جاتا ہے اور بن باز اس کے بارے میں کہتا تھا:
"يليق أن يعبر عنه بالإمام في الحديث۔
مناسب یہ ہے کہ اس کو علم حدیث کا امام کہا جائے۔"
البانی نے اس حدیث کو صحیح سند حدیث قرار دیا ہے۔
و إسناده صحيح، رجاله رجال الصحيح. وله طرق أخرى عند الطبراني۔[5]
ہيثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس روایت میں کہ جس میں لفظ خلیفتین آیا ہے، کی سند کو واضح طور پر معتبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:
"رواه أحمد وسنده جيد۔
اس حدیث کو احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے اور اسکی سند اچھی و ٹھیک ہے۔"[6]
حاكم نيشابوري نے بھی حدیث ثقلین کو صحیح مسلم اور بخاری کے معیار کے مطابق صحیح حدیث کہا ہے۔
هذا حديث صحيح علی شرط الشيخين۔[7]
امام سیوطی نے حدیث ثقلین کے حسن و صحیح ہونے کے بارے میں ترمذی اور حاکم کے کلام کو نقل کیا ہے اور ان کے کلام کو بالکل ردّ نہیں کیا اور ان کے کلام پر کسی قسم کا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا:
وأخرج الترمذي وحسنه والحاكم وصححه عن زيد بن أرقم أن النبي صلی الله عليه وسلم قال (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وأهل بيتي)[8]
ہم اس سلسلے میں مختصر طور پر یہاں کچھ مطالب نقل کرتے ہیں،
جیساکہ یہ حدیث مختلف انداز اور الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے، اس حدیث کی ایک نقل میں یہ تعبیر موجود ہے۔
ما إن أخذتم به لن تضلوا بعدي۔
اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے۔[9]
بعض جگہوں پر یہ تعبیر موجود ہے :
ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي۔
اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے۔[10]
بعض جگہوں پر یوں نقل ہوئی ہے؛
لن تضلوا إن اتبعتم و استمسكتم بهما۔[11]
ایک جگہ پر یوں نقل ہوئی ہے؛
لن تضلوا إن اتبعتموهما۔
اگر اللہ کی کتاب اور میری عترت کی پیروی کرو تو ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے۔[12]
بعض جگہوں پر اس تعبیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے؛ "و أنهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض۔"[13]
لہذا اگر ہم یہ کہے: آج قرآن ہے لیکن عترت نہیں ہے تو اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قول کی تکذیب لازم آتی ہے۔
حدیث کا واضح پیغام:
حدیث کی مختلف تعبیرات کو سامنے رکھے تو صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث میں قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کی پیروی کی صورت میں امت کو گمراہی سے بچنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
اور یہی حقیقت میں عترت اہل بیت (علیہم السلام) کی پیشوائی کا اعلان بھی ہے۔ اور واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح قرآن کی پیروی امت پر فرض ہے، عترت اھل بیت (علیہم السلام) کی پیروی بھی امت پر فرض ہے۔
جیساکہ اھل سنت کے ہی بڑے بڑے علما نے بھی اس حدیث کا یہی معنی کیا ہے؛ ہم ذیل میں اھل سنت کے بعض علما کے بیانات کو نقل کرتے ہیں۔
اہل سنت کے بڑے عالم مناوی نے اس سلسلے میں کہا ہے:
"و قد جعل رسول الله (صلی الله عليه و آلہ و سلم) أهل بيته عدلا للقرآن و التمسك بهم منقذا عن الضلالة۔
رسول الله (صلی الله عليه و آلہ و سلم) نے اھل بیت (علیہم السلام) کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور ان کی پیروی کو گمراہی سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔"[14]
انہوں نے ایک اور جگہ کتاب جواہر العقدین سے علامہ سمہودی کے کلام کو حدیث ثقلین کے بارے میں اس طرح سے نقل کیا ہے کہ:
"إنَّ ذلك يفهم وجود من يكون أهلاً للتمسك من أهل البيت والعترة الطاهرة في كلِّ زمان وجدوا فيه إلي قيام الساعة حتَّي يتوجَّه الحثُّ المذكور إلي التمسك به، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا كما سيأتي أمانًا لأهل الأرض، فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض۔
اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اہل بیت (علیہم السلام) میں سے ہر زمانے میں ایک ایسا فرد ہونا چاہیے کہ جس سے تمسک کرنا بھی صحیح و شرعی ہو، اور وہ قیامت تک باقی بھی رہے، تاکہ اس حدیث میں تمسک کرنے کا حکم اپنا معنی دے سکے، جس طرح کہ قرآن کریم بھی ایسا ہی ہے، اسی وجہ سے بعض روایات میں اہلبیت (علیہم السلام) کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے کہ جب بھی وہ سارے زمین سے چلے جائیں گے تو زمین اپنے اہل کے ساتھ نابود ہو جائے گی۔"[15]
ابن حجر ہيثمی کہ جو اہل سنت کا محدث ہے، حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد امام کے وجود پر اس طرح سے استدلال کرتا ہے:
"والحاصل ان الحث وقع علي التمسك بالكتاب والسنة وبالعلماء بهما من أهل البيت ويستفاد من مجموع ذلك بقاء الأمور الثلثة إلي قيام الساعة"۔
وہ جو اس روایت سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت اور رسول خدا کی اہل بیت کہ جو قرآن و سنت کے عالم ہیں، سے تمسک کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی گئی ہے، اور اس ساری بات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں یعنی قرآن و سنت و اہل بیت یہ قیامت تک باقی رہیں گی۔"[16]
اہل بیت (علیھم السلام) سے تمسک کرنے کے بارے میں چند دوسری روایات کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر کہتا ہے کہ:
"وفي أحاديث الحث علي التمسك بأهل البيت إشارةٌ إلي عدم انقطاع متأهل منهم للتمسك به إلي يوم القيامة، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا أماناً لأهل الأرض كما يأتي، ويشهد لذلك الخبر السابق: في كل خلَفٍ من أمتي عدول من أهل بيتي۔
جن احادیث میں اہل بیت سے تمسک کرنے کے بارے میں حکم دیا گیا ہے، ان میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین ہدایت کرنے والے اہل بیت سے کبھی بھی خالی نہیں ہو گی، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے۔ اس بات پر دلیل گذشتہ روایت ہے کہ جس میں فرمایا ہے کہ: میری امت کی ہر قوم کے درمیان میرے عادل اہل بیت موجود ہوں گے۔"[17]
اھل سنت کے مشہور عالم دین تفتازانی کہ جو علم کلام کے بہت بڑے عالم ہیں، وہ لکھتے ہیں؛
"ألا يري أنه عليه الصلاة و السلام قرنهم بكتاب الله في كون التمسك بهما منقذا من الضلالة و لا معني للتمسك بالكتاب إلا الأخذ بما فيه من العلم و الهداية فكذا في العترة۔
کیا نہیں دیکھتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے پیروی اور تمسک کی صورت میں گمراہی سے نجات کے سلسلے میں اہل بیت(علیہم السلام) کو قرآن کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا؟ لہذا جس طرح قرآن کے ساتھ تمسک کا معنی قرآن کے علوم اور ہدایت کی پیروی کرنا ہے،اسی طرح اھل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ تمسک کا بھی یہی معنی ہے۔"[18]
ملا علي قاری كه جو اهل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں کہا ہے
"وَالْمُرَادُ بِالْأَخْذِ بِهِمُ التَّمَسُّكُ بِمَحَبَّتِهِمْ وَمُحَافَظَةُ حُرْمَتِهِمْ وَالْعَمَلُ بِرِوَايَتِهِمْ وَالِاعْتِمَادُ عَلَى مَقَالَتِهِمْ۔
یہ جو رسول اللہ (صلی الله عليه و سلم) نے فرمایا: (ما إن أخذتم) یہاں اخذ سے مراد عترت اھل بیت (علیہم السلام) سے محبت، ان کا احترام اور ان کی روایات پر عمل اور ان کی گفتار پر اعتماد کرنا ہے۔[19]
ابن مالک سے نقل ہوا ہے :
"وقال بن الملك التمسك بالكتاب العمل بما فيه وهو الائتمار بأوامر الله والانتهاء عن نواهيه ومعنى التمسك بالعترة محبتهم والاهتداء بهديهم وسيرتهم۔
قرآن سے تمسک کا معنی قرآن پر عمل کرنا، قرآن کے اوامر کو انجام دینا اور نواہی سے بچنا ہے اور عترت سے تمسک کا معنی بھی ان سے محبت اور ان کی ہدایت کے مطابق چلنا اور ان کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔[20]
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس فرمان کے مطابق جس طرح قرآن کی تعلیمات اور قرآنی ہدایت کے مطابق چلنا امت کے لیے ضروری ہے، آئمہ اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات اور ان کی سیرت اور فرامین کے مطابق چلنا بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ لہذا ان دونوں کی پیروی کی صورت میں ہی گمراہی سے نجات ملے گی۔
ایک اہم سوال:
اھل بیت (علیہم السلام) کی پیروی کے لیے ان کی تعلیمات اور ان کی سیرت کا موجود ہونا ضروری ہے۔ لیکن اھل سنت کی معتبر کتابیں ان کی تعلیمات سے خالی ہیں۔ اب اھل سنت کے پاس گمراہی سے نجات کے لیے کونسی ضمانت موجود ہے؟