logo-img
رازداری اور پالیسی
post-img

تسکین المؤمنین تسبیح جناب زہرا (علیہا السلام)

تسکین المؤمنین تسبیح جناب زہرا (علیہا السلام)

تسبیح جناب زہرا (علیہا السلام) سے مراد اللہ تعالیٰ کا معین عدد اور مخصوص اذکار کے ساتھ تسبیح کرنا ہے کہ جس میں 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنا اور 33 مرتبہ الحمد للہ کہنا اور 33 مرتبہ سبحان اللہ کہنا ہے۔
تسبیح جناب زہرا (علیہا السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف سے خاص طور پر اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)کے لیے ایک ہدیہ تھی اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہی یہ تسبیح جناب زہرا (علیہا السلام) کو تعلیم فرمائی اور اسی وجہ سے یہ تسبیح آپ (علیہا السلام) ہی کے نام سے معروف ہے اور آپکی طرف منسوب ہے جیسا کہ روایت میں ملتا ہے کہ جناب زہرا (علیہا السلام) نے اپنے والد گرامی سے گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادم طلب کرنے کا ارادہ فرمایا،رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ (علیہا السلام) سے فرمایا کہ کیا میں آپ کو ایسی چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں جس میں اس سے بڑھ کر بھلائی ہو،آپ (علیہا السلام) نے فرمایا:جی ہاں یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ) ،چنانچہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا : 34 مرتبہ اللہ اکبر،33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ کہیے۔

تسبیح زہرا (علیہا السلام) کی کیفیت:

"عَنْ أَبِی بَصِيرٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أنَّهُ قَالَ فِی تَسْبِيحِ‏ فَاطِمَةَ صلوات الله عليها: "يُبْدَأُ بِالتَّكْبِيرِ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ التَّحْمِيدِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ التَّسْبِيحِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ"
ابو بصیر نے امام صادق (علیہ السلام)سے روایت کی ہے : آپ (علیہ السلام) تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ پہلے 34 مرتبہ اللہ اکبر کہا جائے،پھر 33 مرتبہ الحمد للہ کہا جائے اور آخر میں 33 مرتبہ سبحان اللہ کہ جائے۔[1]

تسبیح زہرا (علیہا السلام) کا ثواب:

"رُوِی عَنِ الإمام محمد بن علی الباقر عليه السلام أَنَّهُ قَالَ: "مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَی‏ءٍ مِنَ التَّحْمِيدِ أَفْضَلَ مِنْ تَسْبِيحِ‏ فَاطِمَةَ عليها السلام، وَ لَوْ كَانَ شَی‏ءٌ أَفْضَلَ مِنْهُ لَنَحَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه و آله فَاطِمَةَ عليها السلام"
امام محمد باقر (علیہ السلام) سے مروی ہے :تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) سے بڑھ کر زیادہ بافضیلت کوئی ایسی حمد و ثنا نہیں کہ جس کے ذریعہ اللہ کی عبادت بجا لائی جائے،اگر اس سے افضل کوئی حمد ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) جناب فاطمہ (علیہا السلام) کو عنایت کرتے۔[2]
"عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْقَمَّاطِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ‏: "تَسْبِيحُ‏ فَاطِمَةَ عليها السلام فِی كُلِّ يَوْمٍ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ صَلَاةِ أَلْفِ رَكْعَةٍ فِی كُلِّ يَوْمٍ"
ابو خالد سے مروی ہے :وہ کہتا ہے میں نے امام صادق (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ روزانہ ہر نماز کے بعد تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) پڑھنا مجھے ہر روز ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔[3]
"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عليه السلام عَنِ التَّسْبِيحِ؟ فَقَالَ: "مَا عَلِمْتُ شَيْئاً مُوَظَّفاً غَيْرَ تَسْبِيحِ‏ فَاطِمَةَ عليها السلام"
محمد بن مسلم سے مروی ہے،وہ کہتا ہے :میں نے امام باقر (علیہ السلام) سے تسبیح (زہرا (علیہا السلام)) کے بارے دریافت کیا؟چنانچہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کسی ایسی چیز کے بارے علم نہیں کہ جس کو باقاعدگی سے انجام دیا جائے سوائے تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) کے (الكافی: 2 / 533)

تسبیح زہرا (علیہا السلام) پر مداومت:

"عَنْ أَبِی هَارُونَ الْمَكْفُوفِ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ: "يَا أَبَا هَارُونَ إِنَّا نَأْمُرُ صِبْيَانَنَا بِتَسْبِيحِ فَاطِمَةَ عليها السلام كَمَا نَأْمُرُهُمْ بِالصَّلَاةِ، فَالْزَمْهُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَلْزَمْهُ عَبْدٌ فَشَقِیَ"
ابو ہارون المکفوف نے امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے :آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اے ابو ہارون! ہم اپنے بچوں کو تسبیح فاطمہ کا حکم دیتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہم ان کو نماز کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں،پس تم اس پر مواظبت اختیار کرو،جو بندہ بھی اس کو اپنے لیے لازم قرار نہیں دیتا ہے اس نے بد بختی کے راستہ کو اختیار کیا

تسبیح زہرا (علیہا السلام) (ذکر کثیر )کا واضح مصداق:

"رُوِيَ عَنِ الإمام جعفر بن محمد الصادق عليه السلام أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ: ﴿اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا﴾، مَا هَذَا الذِّكْرُ الْكَثِيرُ؟ فَقَالَ: "مَنْ سَبَّحَ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ عليها السلام فَقَدْ ذَكَرَ اللَّهَ الذِّكْرَ الْكَثِيرَ"
امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ﴾ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ (یا ابن رسول اللہ (علیہ السلام)) اس ذکر کثیر سے کیا مراد ہے ؟آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: جس نے تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) کے ذریعہ (اللہ تعالیٰ) کی تسبیح کی اس نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کثیر انجام دیا۔[4]

تسبیح زہرا (سلام اللہ علیہا) کے اوقات:

1۔ ہرفریضہ نماز کے فورا بعد اورنمازی کے پاؤں سمیٹنے یا پھیلانے سے پہلے پہلے۔
٭ "رُوِی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ أنَّهُ قَالَ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّه عليه السلام: "مَنْ‏ سَبَّحَ‏ تَسْبِيحَ‏ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ عليها السلام قَبْلَ أَنْ يَثْنِيی رِجْلَيْهِ مِنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَ لْيَبْدَأْ بِالتَّكْبِيرِ"
عبد اللہ بن سنان سے مروی ہے کہ امام صادق (علیہا السلام) نے فرمایا : جو شخص واجب نماز کے بعد اپنے پاؤں سمیٹنے سے پہلے پہلےتسبیح حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پڑھتا ہے خدا اس کو بخش دیتا ہے،اور اسے چاہیے کہ اللہ اکبر سے ابتدا کرے۔[5]
٭ "و في رواية أخرى عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام، قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏ "مَنْ‏ سَبَّحَ‏ تَسْبِيحَ‏ فَاطِمَةَ فِي دُبُرِ الْمَكْتُوبَةِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَبْسُطَ رِجْلَيْهِ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ الْجَنَّةَ"
ایک اور روایت میں عبد اللہ بن سنان، امام صادق(علیہ السلام) سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے امام(علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص نماز فریضہ کے بعد اپنے پاؤں کو پھیلانے سے پہلے پہلےتسبیح فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پڑھتا ہے خداوند عالم اس کے لیےجنت واجب کر دیتا ہے۔[6]
2۔سونے سے پہلے:
٭" عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أنَّهُ قَالَ: "تَسْبِيحُ‏ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ عليها السلام، إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَكَبِّرِ اللَّهَ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ، وَ احْمَدْهُ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ، وَ سَبِّحْهُ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ، وَ تَقْرَأُ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، وَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، وَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الصَّافَّاتِ، وَ عَشْراً مِنْ آخِرِهَا"
ہشام بن سالم نے امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا :جب تم سونے کی غرض سے اپنے بستر کا ارادہ کرو تو تسبیح فاطمہ(علیہا السلام) کے ذریعہ اللہ کی تسبیح کرو،چنانچہ 34 مرتبہ اللہ اکبر،33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو،اور آیت الکرسی اور معوذتین اور سورہ صافات کی پہلی اور آخری دس آیات پڑھو۔[7]

تسبیح زہرا (علیہا السلام) کے فوائد اور ان کے آثار:

1۔شیطان سے دوری اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا کا حصول:
٭ "رُوی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام‏: "مَنْ‏ سَبَّحَ‏ تَسْبِيحَ‏ فَاطِمَةَ عليها السلام ثُمَّ اسْتَغْفَرَ غُفِرَ لَهُ، وَ هِیَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَ أَلْفٌ فِی الْمِيزَانِ، وَ تَطْرُدُ الشَّيْطَانَ وَ تُرْضِی الرَّحْمَنَ"
محمد بن مسلم سے مروی ہے،وہ کہتا ہے :امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا :جس نے تسبیح فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور پھر اللہ سے مغفرت طلب کی تو اس کو بخش دیا جائے گا،اور تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) زبان سے تو سو اذکار ہی ہیں لیکن میزان (الٰہی) میں ہزار ہیں،اور تسبیح فاطمہ(علیہا السلام)، شیطان کی دور کرتی ہے اور رحمٰن کی رضا مندی کی باعث ہے۔[8]
2۔بیماریوں سے شفا :
٭ "رُوِی أنَّهُ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَبِی عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام وَ كَلَّمَهُ فَلَمْ يَسْمَعْ كَلَامَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ، وَ شَكَا إِلَيْهِ ثِقْلًا فِي أُذُنَيْهِ. فَقَالَ لَهُ: "مَا يَمْنَعُكَ، أَوْ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ تَسْبِيحِ‏ فَاطِمَةَ عليها السلام"؟!فَقَالَ لَهُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ، وَ مَا تَسْبِيحُ‏ فَاطِمَةَ؟فَقَالَ: "تُكَبِّرُ اللَّهَ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ، وَ تُحَمِّدُ اللَّهَ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ، وَ تُسَبِّحُ اللَّهَ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ، تَمَامَ الْمِائَةِ".قَالَ: فَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ إِلَّا يَسِيراً حَتَّى ذَهَبَ عَنِّی مَا كُنْتُ أَجِدُهُ "
مروی ہے کہ ایک آدمی امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (علیہ السلام) سے کچھ گفتگو کی،لیکن وہ امام صادق (علیہ السلام) کی کلام سن نہ سکا اور آپ (علیہ السلام) سے اپنے کانوں کے بھاری پن کی شکایت کی،آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : تم کدھر بھٹک رہے ہو یہ تمہارے سامنے تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) ہے، کس چیز نے تمہیں اس سے روک رکھا ہے ؟اس نے آپ(علیہ السلام) سے عرض کی : (مولا) میں آپ پر قربان جاؤں،یہ تسبیح فاطمہ(علیہا السلام) کیا ہے ؟
آپ(علیہ السلام) سے فرمایا : 34 مرتبہ اللہ اکبر،33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے اس تسبیح فاطمہ (علیہا السلام) پہ ابھی تھوڑا سا ہی عمل کیا تھا کہ مجھے جس مرض کی شکایت تھی وہ مجھ سے دور ہو گئی۔[9]

[1] الكافی: 3 / 342
[2] الكافی: 3 / 343
[3] الكافی: 3 / 343
[4] وسائل الشيعۃ، 6 / 443
[5] الكافی: 3 / 342
[6] بحار الانوار، 82 / 332
[7] الكافی: 2 / 536
[8] وسائل الشيعۃ،6 / 442
[9] مشكاة الانوار فی غرر الاخبار: 278