عربی لغت میں طیار کا مطلب ہے پرواز کرنے والا اب کیا وجہ ہے جو حضرت جعفر کو کیوں طیار کہا جاتا ہے؟ کیا مناسبت ہے حضرت جعفر اور طیار لقب میں؟
جواب یہ ہے کہ:
حضرتِ جعفر بن ابی طالب کو طیار کا لقب خود سرکار دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے عطا کیا ہے جب جناب جعفر کی شہادت ہوئی اور آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تھے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے بشارت دی
لَقَدْ أَبْدَلَهُ اَللَّهُ بِهِمَا جَنَاحَيْنِ يَطِيرُ بِهِمَا فِي اَلْجَنَّةِ [1]
اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفر کو بازوؤں کے بدلے دو پَر عطا کیئے جن سے وہ جنت میں ملائکہ کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جمادی الاولی 8 ہجری جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار کی شہادت ہوئی۔
حضرت جعفر طیار کی مدح میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں، جیسے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ نے حضرت جعفر طیار کو اپنی ذات سے تشبیہ دی ہے اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔
أَنَّ اَلنَّبِيَّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَ خُلُقِي يَا جَعْفَرُ.
امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ کائنات کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے جناب جعفر سے ارشاد فرمایا!
اے جعفر آپ صورت و سیرت میں مجھ سے بہت شباہت رکھتے ہیں [2]۔
جناب جعفر طیار وہ ہستی ہیں کہ جن کی سربراہی میں اسلام کی پہلی ہجرت ہوئی اور یہ ہجرت حبشہ کی جانب تھی جو آج افریقہ ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق اسلام کی پہلی ہجرت حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے کے چھ ہزار دوسو سات سال گزرنے کے بعد ہوئی، ہجرت کا سبب یہ تھا کہ مشرکین مکہ مسلمانوں کو اتنا شدید اذیت دینے لگے کہ اب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا، خاص طور سے ان مسلمانوں کے لیے جو ابھی جدید دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اسی سبب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ نے ہجرت کی جانب اشارہ کیا کہ حبشہ کی جانب ہجرت کی جائے وہاں کے لوگ اہل کتاب ہیں اور ان کا بادشاہ نجاشی ہے جو رحم دل ہے۔
رجب کے مہینے میں تقریبا 80 کے قریب لوگ جناب جعفر طیار کی سربراہی میں حبشہ کی جانب سمندری راستے سے ہجرت کر گئے۔ کتاب (طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 138) کے مطابق مرد و زن کل ملا کر ایک سو ایک افراد پر یہ قافلہ مشتمل تھا، جبکہ حبشہ کی سرزمین پر احکام دین کی تبیلیغ کی ذمہ راری نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ نے حضرت جعفر کو سونپی تھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی جانب سے یہ ذمہ داری حضرت جعفر کو دینا خود ابو طالب کے فرزند کے علم و تقوی پر بہت بڑی دلیل ہے۔
مشرکین مکہ نے ان مہاجرین کا تعاقب کیا جو حبش کی جانب ہجرت کر رہے تھے مگر کفار کے پہنچنے سے پہلے یہ لوگ کشتیوں میں سوار ہو چکے تھے اور کشتیاں بھی روانہ ہو گئی تھی اس لیے وہ مسلمان مہاجرین مشرکین کے پنجے سے نکل کر باحفاظت حبشہ پہنچ گئے۔
حبشہ کی ہجرت مشرکین کے لیے بہت ناگوار تھی اسی وجہ سے انہوں نے عمر بن العاص اور عبداللہ ابن ابی ربیعہ کو تحفے تحائف لے کر نجاشی بادشاہ کے دربار میں بھیجا اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ہجرت کرنے والوں کو ان مشرکین کے حوالے کر دیا جائے اور انہیں مکہ لانے کے بعد عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ کوئی بھی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی جرات نہ کر سکے۔
چنانچہ جب انہوں نے اپنی بات نجاشی کے سامنے رکھی کہ مکہ سے کچھ شر انگیز لوگ بھاگ کر آپ کے ملک میں پناہ لے چکے ہیں لہذا انہیں ہمارے حوالے کیا جائے، نجاشی نے کہا جب تک ہم دوسرے فریق کی بات نہ سن لے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
نتیجتا حضرت علی کے بھائی مہاجرین کے سالار جناب جعفر ابن ابی طالب اپنی جماعت کے ہمراہ نجاشی کے دربار میں آئے، نجاشی نے سوال کیا کہ اپ لوگوں کے اصول و قواعد کیا ہیں؟ آپ کے ملک والے اپ کے خلاف کیوں ہیں؟
حضرت جعفر طیار نے انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریر شروع کی۔
"اے بادشاہ ! ہمارے ملک کے لوگ جاہل تھے، مردار کھاتے تھے اور بے ہودہ باتیں بکا کرتے تھے ان میں نہ انسانیت تھی نہ سچی ہمدردی، مہمان داری اور پڑوسیوں کے حقوق سے نہ آشنا تھے، ان حالات میں اللہ تعالی نے اپنے انتہائی فضل و کرم سے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی امانت دیانت، صدق، حسب نسب زہد و تقوی سے ہم تمام اچھی طرح واقف تھے۔
اس پیغمبر نے ہمیں توحید کی دعوت دی، شرک اور بت پرستی کی گمراہی سے نکالا، اس نے ہمیں سچ بولنے، وعدہ وفا کرنے، گناہوں سے بچنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔
ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم خدا کے اس سچے نبی پر ایمان لے آئے ہیں اس جرم میں ہماری قوم ہم پر سختی اور تشدد کرنے پر تل گئی ہے، ہماری قوم چاہتی ہے کہ ہم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت ترک کر دیں اور پتھر، مٹی اور لکڑیوں سے بنے ہوئے بتوں کی پرستش شروع کر دیں اب ان کے اس تشدد سے بچنے کے لیے ہم نے اپ کے ملک میں پناہ لی ہے"۔
اس تقریر کا نجاشی پر بہت اثر ہوا اس نے تمنا کا اظہار کیا کہ کلام خدا جو رسول اللہ پر نازل ہوا ہے سنایا جائے۔
حضرت جعفر طیار نے سورہ مریم کی تلاوت شروع کی تو نجاشی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
حبش کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ کی صداقت کا اعتراف کیا اور کہا: بے شک حضرت محمد وہی رسول ہیں جن کی تشریف آوری کے لیے حضرت مسیح نے خبر دی تھی، اللہ کا شکر ہے کہ میں ان کے زمانے میں ہوں۔
کفارِ مکہ کو نہایت مایوسی کے ساتھ واپس جانا پڑا اور مسلمان ایک طویل عرصہ تک حبشہ میں اباد رہے اور نہایت امن اور اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔
حضرت جعفر اور ان کی زوجہ جناب اسماء بنت عمیس کو اللہ نے حبشہ کی سرزمین پر سب سے پہلا مسلمان بچہ عطاء کیا جس کا نام عبداللہ ابن جعفر طیار رکھا گیا بعد میں جناب عبداللہ ابن جعفر طیار سے ہی حضرت زینب بنت علی علیہما السلام کی شادی ہوئی۔
ہجرت کے ساتویں سال جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس پلٹ کر آئے، یہ عین وہی موقع تھا جب فتح خیبر ہوئی تھی۔
حضرت جعفر طیار ہدیے اور تحائف کے طور پر خوشبو، قیمتی لباس وہاں سے لے کر آئے۔
جعفر طیار (رضی اللہ عنہ) کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جائے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ کو فتح خیبر کے ساتھ ساتھ ہی یہ خبر ملی کہ جعفر پلٹ آئے ہیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
مَا أدري بأيّهما أنا أُسَرُّ، بِفَتْحِ خَيْبَرَ أَمْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ
مجھے نہیں معلوم کہ کون سی خوشی میرے لیے بہت بڑی ہے؟ خیبر کا فتح ہونا یا جعفر کا یہاں ہونا [3] ۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) سے حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانب وحی کی اور بیان کیا کہ؛
بے شک جعفر (طیار) کی چار خصلتیں اتنی عظیم ہیں کہ میں (اللہ) جعفر کا قدردان ہوں اور میں نے جعفر سے (یہ عمل) قبول کیا ہے۔
چنانچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت جعفر کو بلایا ان اوصاف کے متعلق پوچھا؛ حضرت جعفر نے فرمایا اے اللہ کے رسول اگر اللہ تعالیٰ خود ان خصوصیتوں کو ظاہر نہ کرتا تو میں کبھی بھی کسی سے بیان نہ کرتا۔
1۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ
(مَا شَرِبْتُ خَمْراً قَطُّ لِأَنِّي عَلِمْتُ أَنْ لَوْ شَرِبْتُهَا زَالَ عَقْلِي)
میں نے کبھی بھی شراب نہیں پی کیونکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ شراب عقل کو زائل کر دیتی ہے۔
2۔ وَ مَا كَذَبْتُ قَطُّ لِأَنَّ اَلْكَذِبَ يَنْقُصُ اَلْمُرُوءَةَ۔۔
دوسری خصوصیت یہ کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ جھوٹ جواںمردی اور مُرَوّت کو ختم کر دیتا ہے۔
3۔ میں کبھی زنا کے قریب بھی نہیں گیا کیونکہ جو دوسروں کی مستورات سے قبیح عمل کرے گا اس کی حریم کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔
4۔ وَ مَا عَبَدْتُ صَنَماً لِأَنِّي عَلِمْتُ أَنَّهُ لاَ يَضُرُّ وَ لاَ يَنْفَعُ
میں نے کبھی بتّوں کی پرستش نہیں کی کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ بت نہ کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور نا ہی نقصان۔
اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت جعفر طیار کے کاندھے کو تھپتھپایا اور فرمایا:
حَقٌّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ يَجْعَلَ لَكَ جَنَاحَيْنِ تَطِيرُ بِهِمَا مَعَ اَلْمَلاَئِكَةِ فِي اَلْجَنَّةِ۔
حق ہے کہ اللہ آپ کے لیے دو پر عطا کرے جن کے سبب آپ ملائکہ کے ساتھ جنت میں پرواز کریں [4]۔
سات ہجری میں حبشہ (ایتھوپیا) کی سرزمین پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا عقد جناب ام حبیبہ سے ہوا جس میں خاص طور سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی جانب سے حضرت جعفر طیار اور چند مسلمین کی جماعت کو مدعو کیا گیا۔
یہ واضح رہے کہ جب حضرت جعفر طیار حبشہ کی جانب ہجرت کر کے گئے تھے تو ان کے ساتھ جانے والوں میں ام حبیبہ بنت ابی سفیان شامل تھیں جو اپنے شوہر عبداللہ ابن جحش کے ساتھ حبشہ گئیں تھیں، مگر عبداللہ ابن جحش بدبخت مرتد ہو گیا اور لالچ میں مذہب عیسائیت قبول کر لیا جبکہ حضرت ام حبیبہ مسلمان رہیں، جس کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پیغام بھیجا کہ میری جانب سے ام حبیبہ سے رشتہ طلب کریں اور آپ میرے وکیل ہیں جبکہ جناب خالد ابن سعید العاص حضرت ام حبیبہ کے وکیل بنے۔
چار سو دینار حق مہر رکھا گیا جو جناب ام حبیبہ کے وکیل صحابئ رسول (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) جناب خالد بن سعید العاص کو دے دیا گیا۔
اس عقد میں مہمانِ خصوصی کے طور پر حضرت جعفر طیار شریک تھے [5]
امام سجاد (علیہ الصلوۃ والسلام) سے حدیث منقول ہے جس میں امام سجاد (علیہ السّلام) اہل بیت (علیہم السّلام) پر سخت مصیبت کے ایام کا تذکرہ فرمارہے تھے آپ نے فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ أَشَدَّ عَلَى رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ يَوْمَ مُؤْتَةَ قُتِلَ فِيهِ اِبْنُ عَمِّهِ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ [6]۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) پر سب سے سخت دن جنگ موتہ کا تھا جب آپ کے چچا کے فرزند حضرت جعفرِ طیار ابن ابی طالب کی شہادت ہوئی۔
حضرت جعفر طیار اور جناب زید ابن حارثہ دونوں کی شہادت کا غم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) پر بہت زیادہ گراں تھا روایت میں ہے کہ:
قَالَ الصَّادِقُ علیه السلام إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیه و آله حِینَ جَاءَتْهُ وَفَاةُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ كَانَ إِذَا دَخَلَ بَیْتَهُ كَثُرَ بُكَاؤُهُ عَلَیْهِمَا جِدّاً وَ یَقُولُ كَانَا یُحَدِّثَانِی وَ یُؤْنِسَانِی فَذَهَبَا ججَمِیعاً۔[7]
امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ:
جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) تک حضرت جعفر طیار اور حضرت زید بن حارثہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ جب بھی دونوں شہیدوں کے گھر تشریف لے جاتے بہت زیادہ گریہ کرتے اور فرماتے تھے دونوں مجھ سے باتیں کرتے تھے، میرے اکیلے پن کو دور کرتے تھے اب (جعفر اور زید) دونوں ہی چلے گئے [8]۔
واضح رہے کہ حضرتِ جعفر طیار جب حبشہ سے تشریف لائے تو سرورِ دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے آپ کو مؤتہ کی جانب سالار بنا کر بھیجا اور وہیں آپ (رضی اللہ عنہ) کی شہادت ہوئی۔
اس سے پہلے کہ کوئی آ کر جناب جعفر کی شہادت کی خبر دیتا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اللہ کی جانب سے عطا کردہ علم غیب سے یہ خبر ہو چکی تھی۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ:
جس روز جنگ موتہ ہوئی اور حضرت جعفر طیار شہید ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے نماز فجر ادا کی، ہم ساتھ ہی تھے نماز فجر کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) منبر پر تشریف لے گئے اور بیان فرمایا:
(قد التقى اخوانكم مع المشركين للمحاربة)
دیکھو تمہارے بھائی مشرکوں سے جنگ کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ (مدینہ سے مؤتہ کا حال بیان فرما رہے تھے) ایک ایک کے حملے کا ذکر کر رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے بیان کیا کہ اب جناب زید شہید ہوئے اور جناب جعفر کا بازو قلم ہوا، اب دونوں بازوؤں کو قطع کردیا گیا، ہیاں تک کہ بیان فرمایا کہ اب حضرت جعفر شہید ہوئے اور علم گرگیا۔۔
حضرت جابر فرماتے ہیں:
ثُمَّ نَزَلَ عَنِ اَلْمِنْبَرِ وَ صَارَ إِلَى دَارِ جَعْفَرٍ فَدَعَا عَبْدَ اَللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ فَأَقْعَدَهُ فِي حَجْرِهِ وَ جَعَلَ يَمْسَحُ عَلَى رَأْسِهِ [9]۔
سرکار (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) منبر سے اترے، حضرت جعفر کے گھر کی جانب چل دیئے پھر ان کے فرزند عبداللہ ابن جعفر طیار کو بلایا اپنی گود میں بٹھایا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
حضرت جعفر کی زوجہ اور عبداللہ ابن جعفر طیار کی والدہ جناب اسماء بنت عمیس کہتی ہیں اے رسول اللہ آپ بچے کی سر پر ایسی شفقت سے ہاتھ پھیر رہے ہیں جیسے کہ یہ یتیم ہو، اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے خبر دی کہ آج جعفر موتہ کی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں، ان کے دونوں ہاتھ قلم کر دیے گئے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی انکھوں سے آنسو جاری تھے اور بیان کر رہے تھے کہ اللہ نے حضرت جعفر کو دو ہاتھوں کے بدلے سبز زمرت کے دو پر عطا کیے اور اس وقت وہ جہاں چاہیں ملائکہ کے ساتھ جنت میں پرواز کر سکتے ہیں۔[10]
دوسری روایت میں ملا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے خاص کر جناب جعفر طیار پر گریہ کرنے کی تاکید فرمائی۔
فَقَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا:
علیٰ مِثْلِ جَعْفَرٍ فَلْتَبْكِ اَلْبَوَاكِي [11]
جعفر جیسی شخصیت پر رونے والوں کو گریا کرنا چاہئے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ والہ نے اپنی لخت جگر جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام سے فرمایا کہ اپنے چچا کے فرزند حضرت جعفر پر گریہ کیجئے۔
روایت میں ملا کہ جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیہا حضرت اسماء بنت عمیس اور ان کے بچوں کے لیے تین دن تک کھانا لے کر گئیں اور وہیں حضرت جعفر کی بیوہ اور بچوں کو کھانا کھلایا بلکہ کچھ روایات میں ذکر ہوا کہ بیبی فاطمہ تین دن تک یتیم پچوں کے ساتھ رہیں اور خدمت کرتی رہیں۔
عن أبي عبد اللّه عليه السّلام قال: لمّا قتل جعفر بن أبي طالب عليه السّلام أمر رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم فاطمة عليها السّلام أن تأتي أسماء بنت عميس هي و نساؤها، و تقيم عندها ثلاثا، و تصنع لها طعاما ثلاثة أيّام [12]
امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث ہے کہ جب حضرت جعفر ابن ابی طالب کی شہادت ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ کو کہا کہ جعفر طیار کی زوجہ اسماء بنت عمیس کے پاس جائیں تو بی بی خواتین کو لے کر حضرت اسماء بنت عمیس کے گھر تین دن تک رہیں آپ وہیں ان کے لیے کھانا بنایا کرتی تھیں۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے اس عمل کے بعد اسلام میں یہ سنت ہو گئی کہ مرنے والے کے گھر مستحب ہے کہ کھانا لے کے جایا جائے جبکہ اسلام سے پہلے جاہلیت کا یہ طریقہ کار تھا کہ مرنے والے کے گھر جا کر کھانا کھایا جاتا تھا۔
اَلصَّادِقُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : اَلْأَكْلُ عِنْدَ أَهْلِ اَلْمُصِيبَةِ مِنْ عَمَلِ أَهْلِ اَلْجَاهِلِيَّةِ ، وَ اَلسُّنَّةُ اَلْبَعْثُ إِلَيْهِمْ بِالطَّعَامِ كَمَا أَمَرَ بِهِ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ ، فِي آلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ .[13]
امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث ہے کہ :
مصیبت زدہ کے گھر جا کر کھانا یہ دورِ جاہلیت کا عمل ہے سنت یہ ہے کہ ان کے گھر کھانا بھیجا جائے جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے ال جعفر ابن ابی طالب کے گھر کھانا بھجوایا تھا۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا حضرت جعفر طیار سے محبت کا ایک انداز یہ بھی ملا جو خود حضرت جعفر طیار کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ کائنات کے نبی بابا کی شہادت کے بعد گریا بھی فرما رہے تھے اور دعا بھی کئے جا رہے تھے
جناب عبد اللہ بن جعفر طیار فرماتے ہیں:
أَحْفَظُ حِينَ دَخَلَ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ عَلَى أُمِّي فَنَعَى إِلَيْهَا أَبِي فَأَنْظُرُ إِلَيْهِ وَ هُوَ يَمْسَحُ عَلَى رَأْسِي وَ رَأْسِ أَخِي وَ عَيْنَاهُ تُهَرَاقَانِ بِالدَّمْعِ حَتَّى قَطَرَتْ لِحْيَتَهُ
مجھے یاد ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) میری والدہ کے پاس آئے بابا کی شہادت کی المناک خبر دی، میں حضور کی جانب دیکھ رہا تھا وہ میرے سر پر اپنا دست شفقت پھیر رہے تھے، اسی طرح میرے بھائی کے سر پر بھی اپنا دستِ مبارک پھیرتے جارہے تھے جبکہ ان کی دونوں انکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی یہاں تک کہ داڑھی مبارک بھی آنسوؤں سے تر ہو گئی تھی۔
پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ نے بابا کے لیے دعا کی:
اَللَّهُمَّ إِنَّ جَعْفَراً قَدِمَ إِلَى أَحْسَنِ اَلثَّوَابِ فَاخْلُفْهُ فِي ذُرِّيَّتِهِ بِأَحْسَنِ مَا خَلَفْتَ أَحَداً مِنْ عِبَادِكَ فِي ذُرِّيَّتِهِ [14].
اے اللہ جعفرعظیم اجر و ثواب تک پہنچ گئے اے پروردگار ان کی ذریت میں انہیں بہترین جانشین عطا فرما جیسا بہترین جانشین تو نے اپنے بندوں کو ان کی ذریت میں عطا کیا۔
حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار کہتے ہیں تین دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) ہمارے گھر ائے تعزیت پیش کی ہمارے لیے دعا کی اور میری والدہ سے کہا:
فَأَنَا وَلِيُّهُمْ فِي اَلدُّنْيَا وَ اَلْآخِرَةِ
اے اسما بنت عمیس غم نہ کروں میں دنیا اور اخرت میں ان بچوں کا سرپرست ہوں۔
[1] بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج ۲۱، ص ۶۲
[2] بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ج ۲۲، ص ۲۷۶
[3] إعلام الوری بأعلام الهدی ج ۱، ص ۲۰۸