post-img

حضرت فاطمہ معصومہ قم (سلام اللہ علیہا)

حضرت فاطمہ معصومہ قم (سلام اللہ علیہا)

ماہ ربیع الثانی 201 ہجری دس ربیع الثانی کا دن تھا جب حضرتِ فاطمہ بنتِ امام موسی کاظم یعنی جنابِ معصومہ قم (علیہا السلام) کی وفات ہوئی، بعض اہلِ تاریخ نے لکھا کہ 12 ربیع الثانی کو آپ اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

تعارف

حضرت فاطمہ معصومہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بیٹی اورامام علی رضا (علیہ السلام) کی بہن ہیں۔
واضح رہے کہ کتاب مستدرک سفینہ البحار میں لکھا: فاطمة بنت موسى الكاظم (صلوات الله عليه) ثلاثة مسميات بفاطمة۔
امام موسیٰ کا (علیہ السّلام) کی بیٹیوں میں تین کا نام فاطمہ ملتا ہے، اس کے علاوہ چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابن‌ جوزی نے لکھا ہے کہ امام کاظم (علیہ السلام) کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ حضرت معصومہ ان میں سے کون سی ہیں ۔

القاب!

آپ کے بہترین کردار کے سبب آپ کے القابات بھی بہت زیادہ ہیں،
معصومہ اور کریمہ اہل بیت (علیہم السلام) حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب میں سے ہیں آپ کا (معصومہ) لقب امام علی رضا (علیہ السلام) سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔
علامہ شیخ محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد میں یہی روایت منقول ہے جس کے مطابق امام علی رضا (علیہ السلام) نے آپ کو معصومہ کے نام سے یاد کیا ہے۔
البتہ حضرت معصومہ قم (علیہا السّلام) کے اور بھی القابات کا تذکرہ ملتا ہے جو درج ذیل ہیں۔
طاہرہ، حمیدہ، بِرّہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اخت الرضا۔
محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامۃ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام علی رضا (علیہ السلام) کی والدہ بھی ہیں ۔
آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے جیسا کہ ذکر ہوا اس اعتبار سے آپ کی کل عمر مبارک تقریبا 28 سال تھی، آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئیں اورمدینہ میں زندگی بسر کی، 200 ھ میں جب مامون نے امام رضا (علیہ السّلام) کو مدینہ سے نکالا تو بی بی مصصومہ اپنے بھائی اور حجت خدا امام علی رضا (علیہ السّلام) کی تلاش میں شہر قم کے نزدیک تک تشریف لائیں جب اہل قم کو معلوم ہوا تو ان کے بزرگ خاص کر آلِ سعد کے بزرگان خود تشریف لائے اور درخواست کی کہ شہر قم میں قیام فرمائیے آپ سترہ روز قم میں رہیں پھر وہیں پر رحلت فرما گئیں اور آپ کو قم کی سرزمین پر دفن کردیا گیا۔ (روایت کچھ اور تفصیل سے بیان ہوگی)

عظمت بی بی فاطمہ معصومہ قم (سلام اللہ علیہا)

وہ روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق امام کاظم (علیہ السلام) کی بیٹیوں میں سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ،فاطمہ بنت امام موسی (علیہ السلام) ہیں جو حضرت معصومہ علیھا السلام کے لقب سے معروف ہیں جن کا مزار شریف شہر قم میں ہے اور جن کا مزار اہل قم کی آنکھوں کا نور ہے اور لاکھوں زائرین ہر سال سفر کی مشقّات برداشت کر کے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کا فیض حاصل کرنے لیے قم آتے ہیں .
ذبیح اللہ محلاتی صاحب کی کتاب "ریاحین الشریعہ" کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں۔
البتہ اس سلسلے میں مشہور یہی ہے کہ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئیں ۔
واضح رہے آپ کے شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا گیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی ہے۔
اسی طرح تیسری صدی کے مشہور تاریخ نگار یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی لیکن اس بات پر اعتراض کیا گیا ہے کہ امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کے کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے میں اس طرح کی کوئی بات ذکر نہیں ہے۔
بعض محققین نے بنی عباس خصوصا ہارون رشید اور مامون کی طرف سے پیدا کردہ گھٹن کے ماحول کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں رکاوٹ جانا ہے۔ 

حضرت معصومہ (سلام اللہ علیھا) کا قم آنے کا سبب

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول بیان ہوئے ہیں: ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم کی طرف جانے کے لئے کہا دوسرے قول؛ جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں، کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی خواہش ظاہر کی تھی
حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے قم آنے کا سبب جیسا کہ علامہ مجلسی نے تاریخ قم سے نقل کیا ہے اور مشایخ اہل قم سے روایت کی ہے، یہ ہے
کیونکہ مأمون نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کو سال ۲۰۰ ھجری میں مدینہ سے مرو کی طرف بلایا، ایک سال بعد حضرت معصومہ (سلام اللہ علیھا) اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے مدینہ سے مرو کی طرف چل پڑیں جب ساوہ پہنچیں تو مریض ہو گئیں، حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے پوچھا یہاں سے قم کتنا دور ہے؟
کہا گیا دس فرسخ دور ہے،پس اپنے خادم کو فرمایا کہ مجھے قم کی طرف لے چلو،اسکے بعد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو قم میں موسی بن خزرج بن سعد کے گھر لایا گیا.
صحیح ترین قول یہ ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ساوہ پہنچنے کی خبر آل سعد کو ملی، تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے پاس جاتے ہیں اور ان سے قم آنے کی درخواست کرتے ہیں، اس کام میں موسی بن خزرج کو مقدم کیا گیا، وہ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں پہنچے اور موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی ناقہ کی مھار کو پکڑا اور انکو قم میں اپنے گھر لے آئے،حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) ۱۷ دن تک انکے گھر میں رہیں پھر وہ وفات پا گئیں، اسکے بعد حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو غسل و کفن دیا گیا اور بابلان کی زمین میں جہاں ابھی حضرت معصومہ کا روضہ مبارکہ ہے دفن کیا گیا یہ زمین موسی بن خزرج کی ملکیت تھی۔

حضرت معصومہ (سلام اللہ علیھا) کی وفات

شیعہ محقق باقر شریف قَرَشی نے کتاب «جوهرة الکلام فی مدح السادة الاعلام» سے یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت معصومہ کا ایران کی جانب سفر کا سبب وہ خط تھا جس میں امام رضا (علیہ السلام) نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو خراسان آنے کی دعوت دی تھی  
یہ اس وقت کی بات ہے جب امام رضا (علیہ السّلام) کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امام (علیہ السّلام) خراسان میں تھے.
 محقق علامہ سید جعفر مرتضی عاملی رح کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ کے مقام پر دشمنان اہل بیت نے زہر سے مسموم کیا تھا اور اسی زہر کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد آپ شہید ہو گئی تھیں ۔
صاحب تاریخ قم کہتے کہ: جب حضرت معصومہ (علیہا السلام) کی وفات ہو گئی انکو غسل وکفن دیا گیا، پھر انکو بابلان لایا گیا اور انکو انکی قبر جو انکے لیے آمادہ کی گئی تھی کے پاس رکھ دیا،آل سعد آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ کون قبر میں داخل ہو اور حضرت معصومہ قم کے جنازے کو دفن کرے، پس گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ایک پرھیزگار اور متقی شخص جسکا نام قادر تھا وہ دفن کرے گا۔
جب اس صالح شخص کو بلانے کے لیے جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں انھوں نے اپنے چہرے کو نقاب سے چھپا رکھا تھا، وہ جنازے کے قریب آئے گھوڑوں سے اترے اور جنازہ پڑھایا قبر میں اترے اور حضرت معصومہ قم (سلام اللہ علیہا) کو دفن کردیا اور گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چلے گئے مگر کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔
موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ (علیھا السلام) کی قبر مطھر کے اوپر کپڑے کا ایک سائباں بنا دیا، جب امام جواد (علیہ السلام) کی بیٹی زینب قم تشریف لائیں تو انھوں نے حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی قبر پر قبہ تعمیر کیا،
جبکہ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی نماز کا محراب ابھی تک موسی بن خزرج کے گھر میں موجود ہے۔

حضرت معصومہ (سلام اللہ علیھا) کی زیارت کی فضیلت

حضرت معصومہ قم کی زیارت کی فضیلت میں کافی روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں سے چند تبرکات ذکر کرتے ہیں۔
تاریخ قم میں مروی ہے کہ:
شہر ری کی ایک جماعت نے امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں شرفیاب ہو کر عرض کیا!
ہم شہر ری سے آپکی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں.
امام نے فرمایا: اللہ بھلا کرے ہمارے شہر قم سے آئے ہوئے دوستوں کا، انھوں نے دوبارہ عرض کیا ہمارا تعلق شہر ری سے ہے، امام نے پھر وہی جواب دیا، اس جماعت نے متعدد بار کہا ہم شہر ری سے ہیں اور امام نے وہی جواب دیا اور اس کے بعد فرمایا:
 اللہ تعالی کا حرم شہر مکہ ہے، رسول اللہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ) کا حرم شھر مدینہ ہے، أمیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا حرم شہر کوفہ ہے، اور ہمارا حرم شہر قم ہے، عنقریب میری اولاد میں سے فاطمہ نام کی ایک بیٹی اس سرزمین میں دفن ہو گی، جو شخص اس شہر میں اسکی زیارت کرے گا جنت اسکے لیے واجب ہو جائے گی۔
راوی کہتا ہے جب امام (صادق علیہ السلام) نے یہ فرمایا اس وقت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی۔
روایت کی گئی ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے سعد اشعری قمی کو فرمایا؛
اے سعد، کیا تم جانتے ہو تمہارے شہر میں ہماری ایک قبر ہے؟ سعد نے کہا؛ میں آپ پر قربان جاؤں کیا آپکا مقصود فاطمہ بنت موسی بن جعفر ع کی قبر ہے؟ فرمایا؛ ہاں جو شخص معرفت کے ساتھ انکی زیارت کرے تو وہ جنت کا حقدار ہوگا .
عن ابن الرضا (عليه السلام)، قال:
من زار قبر عمتي بقم فله الجنة  
امام محمد تقی جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے جنت اس کے لیے جنت ہے۔ 
پروردگار ہمیں معرفت کے ساتھ جناب معصومہ قم سلام اللہ علیہا کی زیارت نصیب فرمائے اور دنیا و آخرت میں اس کا عظیم اجر عنایت فرمائے۔
آمین