اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ

اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ

مشہورو معروف نظریہ، نفاق کے وجود و آغاز کے سلسلہ میں یہ ہے کہ نفاق کی بنیاد مدینہ میں پڑی، اس فکر و نظر کی دلیل یہ ہے کہ مکہ میں مسلمان بہت کم تعداد میں تھے، لہذا کم تعداد افراد سے مقابلہ کےلئے، کفار کی طرف سے منافقانہ و مخفیانہ حرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مکہ کے کفار ومشرکین اعلانیہ  آزار و اذیت، شکنجہ دیاکرتے تھے۔
حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ ہجرت کرنے کی بنا پراسلام نے ایک نئی کروٹ لی، روز بروز اسلام کے اقتدار و طاقت، شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا، لہذا اس موقع پر بعض اسلام کے دشمنوں نے اسلام کی نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کو تباہ و نابود کرنے کی کوشش شروع کردی، اسلام کااظہار اس لئے کرتے تھے تاکہ اسلام کی حکومت و طاقت سے محفوظ رہ سکیں، لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار و جانی دشمن تھے، یہ نفاق کا نقطہ آغازتھا، خاص کر ان افراد کے لئے جن کی علمداری اور سرداری کو شدید جھٹکا لگا تھا، وہ کچھ زیادہ ہی پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مقصد سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے۔
عبداللہ ابن ابی انہی منافقین میں سے تھا، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتور قبیلوں کی سرداری اسے نصیب ہونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂ ہجرت پیش آنے کی بنا بر سرداری کےیہ تمام پروگرام خاکستر ہوکر رہ گئے، بعد میں گر چہ اس نے ظاہراً اسلام قبول کرلیا، لیکن رفتار و گفتارکے ذریعہ، اپنے بغض و کینہ، عناد و عداوت کا ہمیشہ اظہار کرتا رہا، یہ مدینہ میں منافقین کے گروہ کا رئیس تھا،قرآن مجید کی بعض آیات میں اسکی منافقانہ اعمال و حرکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جب پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں وارد ہوئےتو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سےکہا: ہم فریب میں پڑنے والے نہیں، ان کے پاس جاؤ جو تم کو یہاں لائے ہیں اور تم کو فریب دیا ہے، عبد اللہ ابن ابی کی اس ناسزا گفتگو کے فوراً بعدہی سعد بن عبادہ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ہوں، اوس و خزرج کاارادہ تھا کہ اس کو اپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنائیں گے، لیکن آپ کے آنے سے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں، اس کی فرمان روائی سلب ہوچکی ہے،آپ ہمارے قبیلے خزرج میں تشریف لائیں، ہم صاحب قدرت اور باوقار افراد ہیں۔

(اعلام الوری، ص44، بحار الانوار، ج19 ص108)
اسمیں کوئی شک نہیں کہ نفاق کا مبدا ایک اجتماعی و معاشرتی پروگرام کے تحت مدینہ ہے، نفاق ِاجتماعی کے پروگرام کی شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ہے، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں تشکیل پائی تھی، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ میں واردہونا اور اسلام کا روز بروز قوی و مستحکم ہونا اس بات کاباعث ہوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں، البتہ منافقین کی یہ خیانت کارانہ حرکتیں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگوں میں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں۔
قرآن مجید میں بطور صریح جنگ بدر، احد، بنی نظیر، خندق و تبوک نیز مسجد ضرار کے سلسلہ میں منافقین کی سازشیں بیان کی گئی ہیں۔مدینہ میں گروہ منافقین کے منظّم و مرتب پروگرام کے نمونے، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مشکلات کھڑی کرنا، مسجد ضرار کی تعمیر کے لئے چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کرنا۔
رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کرنا ہی تھا کہ منافقین کی حرکات میں شدت آگئی، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حرکتیں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں، مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ہزار کیلو میٹر تھا،موسم بھی گرم تھا، محصول زراعت و باغات کے ایام تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کی مدّ مقابل روم کی طاقتور حکومتیں تھیں، یہ تمام حالات منافقین کے حق میں تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روک سکیں، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یہودی کے یہاں برپا ہوا تھا، جس میں منافق جماعت کے بلند پایہ ارکان موجود تھے،طے  یہ ہوا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت و قوت کا خوف دلایا جائے، ان کے دلوں میں روم کی ناقابل تسخیر فوجی طاقت کا رعب بٹھایاجائے۔
اس جلسہ اور اہداف کی خبر رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی، آپ نے اسلام کے خلاف اس سازشی مرکز کو ختم نیز دوسروں کی عبرت کے لئے حکم دیاکہ سویلم کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایک سازشی جلسہ نیز ان کے ارکان کو متفرق کر کے رکھ دیا ۔

(سیرت ابن حشام، ج2، ص517)
مسجدضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے کہ منافقین میں سے کچھ افراد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایک مسجد قبیلۂ بنی سالم کے درمیان مسجدقبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاہی، تاکہ بوڑھے، بیمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ہیں خصوصاً بارانی راتوں میں،وہ اس مسجد میں اسلامی فریضہ اور عبادت الٰہی کو انجام دے سکیں، ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افتتاح مسجد کی درخواست بھی کی، آپ نے فرمایا: میں ابھی عازم تبوک ہوں واپسی پر انشاء اللہ اس کام کو انجام دوں گا، تبوک سےواپسی پر ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، اس موقع پر وحی کا نزول ہوا ۔( سورہ توبہ، 107 کے بعد کی آیات) جس نے ان کے افعال و اسرار کی پول کھول کر رکھ دی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں نماز پڑھنے  کی بجائے گرانےکا حکم دیا اور اس  کو شہر کے کوڑے اور گندگی ڈالنے کی جگہ قراردیا۔
اگراس جماعت کے فعل کی ظاہری صورت کا مشاہدہ کریں تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے حکم سے حیرت ہوتی ہے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے، یہ مسجد جوگرآئے جانے کے بعد مسجد ضرار کےنام سے مشہور ہوئی، ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھی، یہ مسجد نہیں بلکہ جاسوسی اور سازشی مرکز تھا، اسلام کے خلاف جاسوسی و تبلیغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنا اس کے اہداف و مقاصد تھے۔
ابوعامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاہلیت میں عبّاد و زھاد میں شمار ہوتا تھا اور قبیلۂ خزر ج میں وسیع عمل و دخل رکھتا تھا، جب مرسل اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ ہجرت فرمائی مسلمان آپ کے گرد جمع ہوگئے خصوصاً جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابی کے بعد اسلام ترقی کرتا چلا گیا، ابو عامر جو پہلے ظہور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مژردہ سناتا تھا جب اس نے اپنےاطراف و جوانب کو خالی ہوتے دیکھا تو اسلام کے خلاف اقدام کرنا شروع کردیا، مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ اور دیگرقبائل عرب سے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مدد حاصل کرنا چاہی، جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پروگرام مرتب کرنے میں اسکا بڑا ہاتھ تھا، دونوں لشکر کی صفوں کے درمیان میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا، جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گر پڑے، آپ کی پیشانی مجروح ہوگئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احد کے ختم ہونے کے بعد، باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات و زحمتوں سے دوچار ہوئےتھے، اسلام مزید ارتقا کی منزلیں طے کرنے لگا، صدائے اسلام پہلےسے کہیں زیادہ بلند ہونے لگی ابو عامریہ کامیابی و کامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ روم ہرقل کے پاس گیا تاکہ اس کی مدد سے اسلام کی پیش رفت کو روک سکے، لیکن موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکے، لیکن بعض کتب کےحوالہ سے کہا جاتا ہے، کہ وہ بادشاہ روم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھی کیے۔
اس نکتہ کو بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اور عناد پسند طبیعت کی بنا پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فاسد کا لقب دے رکھا تھا، بہر حال اس سے قبل کہ وہ واصل جہنم ہو، ایک خط مدینہ کے منافقین کے نام تحریرکیا جس میں لشکر روم کی آمد اور ایک ایسے مکان و مقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام کے خلاف سازشی مرکزہو، لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کےلیے بنانا چنداں آسان نہیں تھا لہذا انہوں نے مصلحتاً معذوروں، بیماروں، بوڑھوں کی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈال کر ابو عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا، مسجد کا امام جماعت ایک نیک سیرت جوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تاکہ مسجد قبا کے نماز گزاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جاسکے،اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نےاس مرکز نفاق کو گرانے کا حکم دے دیا ۔(مجمع البیان، ج3، ص72)،تاریخ کا یہ نمونہ جسے قرآن بھی ذکر کر رہا ہے منافقین کی مدینہ میں منظّم کار کردگی کا واضح ثبوت ہے۔

مشہورنظریہ کی تحقیق

مشہورنظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ سےہے، اور نفاق کا وجود، حکومت سے خوف و ہراس کی بناپر ہوتا ہے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے تھے ہی نہیں، لہذا وہاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنی تھا، صرف مدینہ میں مسلمان صاحب قدرت و حکومت تھے لہذا نفاق کا آغازمدینہ ہے۔
لیکن نفاق کی بنیاد فقط حکومت سے خوف و دحشت ہو، اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود میں آنے کا عامل ہوسکتی ہے، لہذا، نفاق کی دو اقسام ہونی چاہیے:
۱۔ نفاقِ خوف:
ان افراد کا نفاق جواسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ہوکراظہار اسلام کرتے ہوئے اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔
۲۔ نفاقِ طمع:
ان افراد کا نفاق جو اس لالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہ اگر ایک روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ہوا، تو اس کی زعامت پر قابض ہوجائیں یا اس کے حصّہ داربن جائیں۔
خوف کی بنا پر نفاق کا سر چشمہ مدینہ ہے، اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت و اقتدار کی باگ ڈور مدینہ میں حاصل کی۔
لیکن نفاق بر بنا طمع و حرص کا مبداء  مکہ ہونا چاہئے، عقل و فکر کی بنا پر بعید نہیں ہے کہ بعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے باجود اسلام کی کامیابی، بار بار رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سےاسلام کے عالمی قوت ہونے کی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے دور اندیش ہوں، کہ آج کا ضعیف اسلام کل قوت وطاقت میں تبدیل ہوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر اسلام لائے ہوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کےمنصب و قدرت کے حق دار بن جائیں۔
اس مطلب کا ذکر ضروری ہے کہ  طمع کے منافق کے افعال و کارکردگی منافقِ خوف کی فعالیت و کارکردگی سے کافی جدا ہے، منافقِ خوف کی خصوصیت، خراب کاری، ، بیخ     کنی، اذیت و تکلیف سے دوچار کرنا ہے، جب کہ منافق طمع ایسانہیں کرتا، بلکہ وہ ایک تحریک کی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ تحریک ایک شکل و صورت میں تبدیل ہوجائے، اور یہ قدرت کی نبض اور دھڑکن کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں، منافق طمع صرف وہاں تخریبی حرکات کو انجام دیتے ہیں جہاں ان کےبنیادی منافع خطرے میں پڑجائیں۔
اگرہم نفاق طمع کے وجود کو مکہ  میں قبول کریں، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ نفاق کے وجود اور اس کےآغاز کو مدینہ  میں تسلیم کیا جائے۔
جیساکہ مفسر قرآن علامہ طباطبائی (رح) اس نظریہ کو پیش کرتے ہیں۔(تفسیر المیزان، ج19 ص287 تا 290) آپ ایک سوال کے ذریعہ مذکورہ مضمون کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں، باوجودکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات، قرآن میں موجود ہیں، کیوں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا نہیں ہوتا، منافقین کے بارےمیں کوئی گفتگو اور مذاکرات نہیں ہوتے، کیا وہ صفحہ ہستی سے محو ہوگئے تھے؟ کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی بنا پر منتشر اور پراگندہ ہوگئے تھے؟ یا اپنے نفاق سے توبہ کرلی تھی؟ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صاحبان نفاق طمع،اورصاحبان نفاق خوف کا تال میل ہوگیا تھا، اپنی خواہشات و حکمت عملی کو جامۂ عمل پہنا چکے تھے، اسلام کی حکومت و ثروت پر قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دہل یہ شعر پڑھ رہے تھے:
لعبت هاشم بالملک                    فلا خبرجاء ولا وحی نزل
خلاصہ ٔبحث یہ ہے کہ نفاق اجتماعی ایک منظّم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظہور پذیر ہوا، لیکن نفاق فردی جو بر بناء طمع و حرص وجود میں آیا ہو اس کا انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں، اس لئے کہ اس نوعیت کانفاق مکہ میں بھی ظاہر ہوسکتاتھا، وہ افراد جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دستور و حکم سے سر پیچی کرتے تھے، ان میں بعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ہوئے تھے، یہ وہی منافق تھے جو طمع و حرص کی بنا پر اسلام کا اظہار کرتے تھے۔

شبکۃ الامامین الحسنین للتراث و الفکر الاسلامی 
http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=500