post-img

نفاق کی اجمالی شناخت

نفاق کی اجمالی شناخت

۱۔ نفاق شناسی کی ضرورت
۲۔نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی
۳۔ مرض نفاق اور اس کے آثار

نفاق شناسی کی ضرورت

دشمن شناسی کی اہمیت صاحبان ایمان کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ خصوصاً اسلامی نظام و قانون میں دشمن کی شناخت و معرفت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نظام کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام، پائداری کے لئے اندرونی (داخلی) و بیرونی (خارجی) دشمنوں نیز، ان کے حملہ آور وسائل کی شناخت ضروری ہے، دشمن اور ان کے مکر و فریب کو پہچانے بغیر مبارزہ کا کوئی فائدہ نہیں، بعض اوقات دشمن کے سلسلہ میں کافی بصیرت و ہوشیاری نہ ہونے کے سبب، انسان دشمن سے رہائی حاصل کرنے کے بجائے دشمن ہی کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ہر اقدام سے پہلے بصیرت و ہوشیاری کو بنیادی شرط بتایا ہے، آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں: العامل علی غیر بصیرة کالسائر علی غیر الطریق، لا یزیده سرعة السیر الا بعداً عن الطریق: بغیر بصیرت و آگاہی کے عمل کو انجام دینے ولا ایسا ہی ہے جیسے راستہ کو بغیر پہچانے ہوئے چلنے والا، کہ اس صورت میں اصل ہدف و مقصد اور راہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔(اصول کافی، ج1، ص43)
اسی ضرورت کی بنا پر قرآن میں پندرہ سو آیات سے زیادہ دشمن کی شناخت کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں، خدا وند عالم ان آیات میں، مومنین اور نظام اسلامی کے مختلف دشمنوں کی (جن و انس میں سے) نشاندہی کی ہے نیز ان کی دشمنی کے انواع و اقسام کےحربے اور ان سے مقابلہ کرنے کے طور و طریقہ کو بتایا ہے، اور اس بات کی مزید تاکید کی ہے کہ مسلمان ان سے دور رہیں اور برائت اختیار کریں ﴿یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء:اے صاحبان ایمان اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔سورہ ممتحنہ/ 1﴾ آیات قرآن کی بنا پر مومنین کے دشمنوں کو بنیادی طور پر چار نوع و گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
نوع اوّل:
شیطان اور اس کے اہل کار ﴿انّ الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدوا: یقیناً شیطان تم سب کا دشمن ہے، تم بھی اسے دشمن بنائے رکھو۔سورہ فاطر/ 6﴾
بعض قرآنی آیات میں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنین کے سلسلہ میں شیطان کے آشکار کینے اور دشمنی کو عدو مبین (آشکار دشمن) سے تعبیر کیا ہے، اللہ انسان کو منحرف کرنے والے شیطان کے مکر و فریب، حیلوں کو شمار کرتے ہوئے، مومنین سے چاہتا ہے کہ وہ شیطان کے راستے پر نہ چلیں۔﴿یا ایها الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان: اے صاحبان ایمان شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔سورہ نور/ 21﴾
نوع دوّم:
 قرآن کی نظر میں مومنین کے دشمنوں میں سے ایک دشمن کفار بھی ہیں۔ ﴿انّ الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا: کفار تمھارے آشکار و عیاں دشمن ہیں۔سورہ نساء/ 101﴾
نوع سوم:
 صاحبان ایمان و اسلام کے دشمنوں میں بعض اہل کتاب خصوصاً  یہودی دشمن ہیں، شہادت قرآن کے مطابق، صدر اسلام سے اب تک اسلام و مسلمان کے کینہ توز، عناد پسند دشمن یہودی رہے ہیں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کو منع کرتا ہے۔﴿لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذین آمنوا الیھود: یقیناً آپ مومنین کے سلسلہ میں شدید ترین دشمن یہود کو پائیں گے۔سورہ مائدہ/ 82﴾
نوع چہارم:
 منافقین :قرآن مجید نے منافقین کے اصلی خدو خال اور خصوصیت نیز ان کی خطرناک حرکتوں کو اجاگر کرنے کے سلسلہ میں بہت زیادہ اہتمام اور بندوبست کیا ہے، تین سو سے زیادہ آیات میں ان کے طرز عمل کو افشا کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کی راہ اور طریقہ کو پیش کیا گیا ہے۔یہ قرآنی آیات بحث حاضر، قرآن میں چہرہ نفاق کا اصلی محور و موضوع ہیں۔
اگرچہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے زرین اقوال بھی روایات و احادیث کی شکل میں تناسب مباحث کے اعتبار سے پیش کیے جائیں گے۔

قرآن میں نفاق و منافقین

منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید کر رہا ہے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار علانیہ طور پر ، مومنین کے مد مقابل ہیں، اور اپنی عداوت کا اعلانیہ اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن منافقین وہ دشمن ہیں جو دوستی کا لباس پہن کر اپنی ہی صف میں مستقر ہوتے ہیں، اور اس طریقہ سے وہ اسلام اور مسلمین کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظاہر کی آرا ستگی دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ہے کہ سب سے پہلے ان کی شناخت کے لئے خاص بینائی و بصیرت چاہیے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز  :آشکار و ظاہر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بہت زیادہ ڈرو۔ (شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج20ص311)
آیت اللہ شہید مطہری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اہمیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر سے کہیں زیادہ شدید ترہے، اس میں کسی قسم کےشک کا شکار ہو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ہی ہے، جو حجاب کے اندر ہے جب تک حجاب کا پردہ اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چہرہ عیاں ہو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دھوکہ و فریب کے شکار اور گمراہ ہوچکے ہوں گے، کیوں مولائے کائنات امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی پیش قدمی کی حالت، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرق رکھتی ہے، ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امیر المومنین علی (علیہ السلام) کا طریقۂ کار، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا نہیں ہے، کیوں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش قدمی اتنی سریع ہے کہ ایک کے بعد ایک دشمن شکست سے دوچار ہوتے جارہے ہیں، لیکن جب مولائے کائنات امیر المومنین علی (علیہ السلام) دشمنوں کے مد مقابل آتے ہیں، تو بہت ہی فشار و مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ان کو رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی پیش رفت حاصل نہیں ہوتی، صرف یہی نہیں بلکہ بعض مواقع پر آپ کو دشمنوں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے؟!صرف اس لئے کہ  پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا مقابلہ کافروں سے تھا اور امیر المومنین (علیہ السلام) کا مقابلہ منافقین  کےگروہ سے تھا۔مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق یا کفرپنھان، ص52
سورہ توبہ کی آیت نمبر 101 سے استفادہ ہوتا ہے کہ کبھی چہرہ نفاق اس قدر ایمان سے آراستہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی عادی عِلم کے ذریعہ اس کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے، اللہ  ہی ہے جو وحی کے وسیلہ سے اس جماعت کا تعارف کراتا ہے﴿وممّن حولکم من الاعراب منافقون و من اهل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذّبهم مرّتین یردّون الی عذاب عظیم: اور تمھارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتےہیں ہم عنقریب ان پر دہرا عذاب کریں گے اس کے بعد وہ عذاب عظیم کی طرف پلٹادیے جائیں گے۔سورہ توبہ/ 101﴾
مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام)، اسلامی معاشرہ میں نفاق کےخطرات کا اظہار کرتے ہوئے نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون: رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ہے: میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ہوں اور نہ مشرک سے، مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم اور دل کے منافق ہیں کہتے وہی ہیں جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔(نھج البلاغہ، نامہ27)
اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی (علیہ السلام) کی زمام داری کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے کہیں زیادہ تھیں۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ہوئے تھے۔
حضرت علی (علیہ السلام) ان افراد سے جنگ و جدال کر رہے تھے جن کی رات گئے تلاوت قرآن کی صدا دلسوز حضرت کمیل جیسی فرد پر بھی اثر انداز ہوگئی تھی(بحار الانوار، ج33، ص399)  آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتہاد سے تھا جو قرآن سے استنباط کرتے ہوئے آپ سے لڑ رہے تھے (سفینۃ البحار، ج1، ص380)وہ افراد جو راہ خدا میں معرکہ و جہاد کے اعتبار سے درخشاں ماضی رکھتے تھے یہاں تک کہ بعض کو تمغہ جانبازی و فدا کاری بھی حاصل تھا، لیکن دنیا پرستی نے ان صاحبان صفات و کردار کو حق کے مقابل لاکھڑا کیا۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر کو (سابقہ، فداکاری و معرکہ آرائی دیکھتے ہوئے) سیف الاسلام کے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد کے جانباز و دلیر تھے، ایسے رونما ہونے والے حالات و حادثات کا مقابلہ کرنا علوی بصیرت ہی کا کام ہے۔ قابل توجہ یہ ہے کہ مولائے کائنات نے نھج البلاغہ میں ایسے افراد سے جنگ کرنے کی بصیرت و بینائی پر افتخار کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے علاوہ کسی بھی فرد کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی جو ان سے مقابلہ و مبارزہ کرتا۔ ایها الناس انی فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری: لوگو! یاد رکھو میں نے فتنہ کی آنکھ کو پھوڑ دیا ہے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے۔(نھج البلاغہ، خطبہ93)
قرآن مجید حکم دے رہا ہے کہ اپنے آشکار و مخفی دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پوری طاقت سے مستعدر ہو اور طاقت حاصل کرو تاکہ تمھاری قدرت و اقتداران کی خلاف ورزی روکنے کا ذریعہ ہوجائے۔ ﴿واعدّوا لهم ما استتطعتم من قوة و من رباط الخیل ترھبون به عدّو الله و عدوکم آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم) اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے (منافقین) سب کو خوفزدہ کردو۔سورہ انفال/60﴾اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں طاقت و قدرت کا حصول تجاوز و قانون کی خلاف ورزی روکنے کا وسیلہ ہے نہ تجاوز گری کا ذریعہ۔ منافقین ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ اسلامی نظام و سر زمین پر  تجاوز کا سوچتے رہتے ہیں ،لہذٰا انتظامی اعتبار سے آمادگی اور معاشرہ کا صاحب بصیرت و دانائی ہونا سبب ہوگا کہ وہ اپنے خیال خام سے باز رہیں، اس نکتہ کا بیان بھی ضروری ہے کہ قوت و قدرت کا حصول (آمادگی) صرف جنگ و معرکہ آرائی پر منحصر نہ ہو اگر چہ جنگ  میں مستعد ہونا، اس کے ایک روشن و واضح مصادیق میں سے ہے، لیکن دشمن کی خصوصیت، اس کے حملہ آور وسائل کی شناخت و پہچان کے لیے بصیرت کا وجود، حصول قدرت و اقتدار کے ارکان میں سے ہے، جب کہ منافقین کا شمار خطرناک ترین دشمنوں میں ہوتا ہے لہذا، نفاق اور اس کی خصوصیت و صفات کی شناخت ان چند ضرورتوں میں سے ایک ہے جسے عالم اسلام ہمیشہ قابل توجہ قرار دے۔ اس لئے کہ ممکن ہے ہزار چہرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ، شاید اسلامی نظام و مسلمانوں کے لئے کاری ضرب ثابت ہو۔

نفاق کے لغوی و اصطلاحی معانی

لفظ نفاق کے معنی، کفر کو پوشیدہ، اور ایمان کا ظاہر کرنا ہے، نفاق کا استعمال اس معنی میں پہلی مرتبہ قرآن میں ہوا ہے، عرب میں اسلام سے قبل اس معنی کا استعمال نہیں تھا، ابن اثیر تحریر کرتے ہیں:
(وهو اسم لم یعرفه العرب بالمعنی المخصوص وهو الذی یستر کفره و یظهره ایمانه) لفظ نفاق کا اس خاص معنی میں استعمال ہونا، لغت کے اعتبار سے اس میں چار احتمال ہوسکتےہیں: (نھایۃ، ابن اثیر، بحث "نفق" و نیز: لسان العرب، ج10، ص359)
پہلا احتمال:
یہ ہے کہ نفاق بمعنی اذھاب و اھلاک کے ہے، جیسے (نفقت الدّابۃ) کہ حیوان کے برباد و ہلاک ہوجانے کے معنی میں ہے۔ نفاق کا اس معنی سے تناسب یہ ہے کہ منافق اپنے نفاق کی بنا پر اس میت کی مثل ہے جو برباد و تباہ ہوجاتی ہے۔
دوسرا احتمال:
نفاق اس عبارت سے اخذ کیا گیا ہے: نفقت لسلعة اذا راجت و کثرت طلابها: وہ سامان جو بہت زیادہ رائج ہواور  اسکے طلب گار بھی زیادہ ہوں تو یہاں پر لفظ "نفق" کا استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر لغوی معنی کا اصطلاحی معنی سے مناسبت یہ ہے کہ  نفاق یہ ہے کہ منافق ظاہر میں اسلام کو رواج دیتا ہے، کیوں کہ اسلام کے طلب گار زیادہ ہوتے ہیں۔
تیسرا احتمال:
نفاق، زمین دوز راستہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (النفق سرب فی الارض له مخلص الی المکان) اس اصل کے
مطابق منافق ان افراد کے مثل ہے جو خطرات کی بنا پر زمین دوز راستہ (سرنگ) میں مخفی ہوجائے، یعنی منافق بھی اسلام کے
لباس کوزیب تن کرکے خود کو محفوظ کرلیتا ہے اگر چہ مسلمان نہیں ہوتا ہے۔
چوتھا احتمال:
نفاق کی اصل "نافقاء" ہے، صحرائی چوہے اپنے گھر کے لئے دو راستے بناتے ہیں ایک ظاہر و آشکار راستہ، اس کا نام "قاصعاء" ہے، دوسرا مخفی و پوشیدہ راستہ، اس کا نام "نافقاء" ہے، جب صحرائی چوہا خطرہ کا احساس کرتا ہے تو، قاصعاء سے داخل ہوکر نافقاء سے فرار کرتا ہے۔اس احتمال کی بنا پر، منافق ہمیشہ خروج کے لئے دو راستہ اپناتا ہے، ایمان پر کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتا اگر چہ اس کا حقیقی راستہ کفر ہے لیکن اسلام کو ظاہر کر کے اپنےآپ کو خطرے سے بچا لیتا ہے۔
ابتدآئی دو احتمال یعنی، نفاق بمعنی ہلاک ہونے اور ترویج پانے کے سلسلے میں علمالغت کی طرف سے کوئی تائید نہیں ملتی ہے، لہذا ان معانی سے اعراض کرنا چاہیے، لیکن تیسرے اور چوتھے احتمال میں سے کون سا احتمال اساسی و بنیادی ہے اس کے لئے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔
تمام مجموعی احتمالات سے ایک نکتہ ضرور سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ نفاق کے معانی میں دو عنصر قطعاً موجود ھے، 1:  دورخی، 2:پوشیدہ کاری
اس بنا پر نفاق کے معانی میں دو رخی و پوشیدہ کاری کا بھی اضافہ کردینا چاہیے، منافق وہ ہے جو دو روئی کا حامل ہوتا ہے، اور اپنی صفت کو پوشیدہ بھی رکھتا ہے۔

قرآن و احادیث میں نفاق کے معانی

 روایات و قرآن میں نفاق دو معانی اور دو عنوان سے استعمال ہوا ہے:
۱۔ اعتقادی نفاق
قرآن و حدیث میں نفاق کا پہلا عنوان ہے اسلام کو ظاہر کرنا، اور باطن میں کافر ہونا، اس نفاق کو اعتقادی نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یہی معنی منظور نظر ہے، یعنی کسی فرد کا ظاہر میں اسلام کا دم بھرنا، لیکن باطن میں کفر کا شیدائی ہونا۔ سورہ منافق کی پہلی آیت اسی معنی کو بیان کرر ہی ہے﴿اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون) پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے ہیں۔﴾
سورہ نسا ءمیں منافقین کی باطنی حالت اس طریقہ سے بیان کی گئی ہے﴿و دّو لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء: یہ منافقین چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہوجاؤ اور سب برابر ہوجائیں۔ سورہ نساء/ 89 ﴾
اس بنیاد پر امکان ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو اسلام کا اظہار کرتے ہوں اور باطن میں دین اور اس کی حقانیت پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں۔لیکن ان کے اس فعل کا محرک کیا ہے؟ اس کا ذکر تاریخ نفاق کی فصل میں بیان ہوگا، اس نوعیت کے افراد کا فعل نفاق ہے اور ان کو منافق کہا جاتا ہے۔یقیناً بعض افراد کا اسلام، جو فتح  مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اسی زمرہ میں آتا ہے، مثال کے طور پر ابوسفیان کا اسلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم کے بعد کے واقعات میں خصوصاً عثمان کے دورہ خلافت میں ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس کا اسلام چال بازی اور مکاری سے لبریز تھا، آہستہ آہستہ خلافتی ڈھانچے میں اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اسلام کے پردے میں کفر ہی کی پیروی کرتا تھا، یہاں تک کہ عثمان کے عصر خلافت میں ابوسفیان، سید الشہدا حضرت حمزہ  (علیہ السلام) کی قبر کے پاس آکر کہتا ہے، اے حمزہ! کل جس اسلام کے لئے تم جنگ کر رہے تھے، آج وہ اسلام گیند کے مثل میری اولاد میں دست بدست ہو رہا ہے۔ (قاموس الرجال، ج10، ص89)
ابوسفیان، خلافت عثمان کے ابتدائی ایام میں خاندان بنی امیہ کے اجتماع میں اپنے نفاق کا اظہار یوں کرتا ہے، خاندان تمیم وعدی (ابوبکر و عمر کے بعد) خلافت تم کو نصیب ہوئی اس سے گیند کی طرح کھیلتے رہو اور اس گیند (خلافت) کے لئے قدم، بنی امیہ سے انتخاب کرو، یہ خلافت صرف سلطنت و بشر کی سرداری ہے اور جان لو کہ میں ہر گز جنت و جہنم پر ایمان نہیں رکھتا ہوں ۔ (الاصابہ، ج4، ص88)
جس وقت ابوبکر نے امور خلافت کو اپنے ہاتھ میں لیا ابوسفیان چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ہوجائے اور اسی غرض کے تحت مولائے کائنات علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کوحمایت کی پیشکش کرتا ہے لیکن حضرت علی (علیہ السلام) اس کو اچھے طریقہ سے پہچانتے تھے، پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا: تم اور حق کے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ہی سے اسلام و مسلمان کے دشمن تھے آپ نے اس کی منافقانہ بیعت کے دراز شدہ ہاتھ کو رد کرتے ہوئے چہرہ کو موڑ لیا۔ تفسیر سورہ توبہ و منافقون
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوسفیان ان افراد میں سے تھا جس کا جسم و روح، اسلام سے بیگانے تھے اور وہ صرف اسلام کا اظہار کرتا تھا۔
۲۔ اخلاقی نفاق
نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ہوا ہے اخلاقی نفاق ہے، یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے
البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ہوتا ہے، وہ فرد جو اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رہا ہو وہ فردی اخلاق کے نفاق میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے نہ بجالاتا ہو تو، وہ  اخلاق اجتماعی  کےنفاق سے دوچار ہے۔
فردی اخلاقی نفاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات﷨  کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارہی ہیں، حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے
ہیں: اظهر الناس نفاقاً من امر با لطاعة ولم یعمل بها ونهی عن المعصیة ولم ینته عنها:۲۱ کسی فرد کا سب سے واضح و نمایاں نفاق یہ ہے کہ اطاعت (خداوند متعال) کا حکم دے لیکن خود مطیع و فرمان بردار نہ ہو، گناہ و عصیان کو منع کرتا ہے لیکن خود کو اس سے باز نہیں رکھتا۔ (غرور الحکم، حدیث 3214)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) مرسل اعظمﷺ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ما زاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فهو عندنا نفاق: جب کبھی جسم (ظاہر) کا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زیادہ ہو تو ایسی حالت ہمارے نزدیک نفاق ہے۔ اصول کافی، ج2، ص396 ۔حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ان المنافق ینهی ولا ینتهی و یامر بما لا یاتی …… یمسی وهمه العشا وهو مفطر و یصبح وهمه النوم ولم یسهر)) یقیناً منافق وہ شخص ہے جو لوگوں کو منع کرتا ہے لیکن خود اس کام سے پرہیز نہیں کرتا ہے، اور ایسے کام کا حکم دیتا ہے جس کو خود انجام نہیں دیتا، اور جب شب ہوتی ہے تو سوائےشام کے کھانے کے اسے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی حالانکہ وہ روزہ سے بھی نہیں ہوتا، اور جب صبح کو بیدار ہوتا ہے تو سونے کی فکر میں رہتا ہے، حالانکہ شب بیداری بھی نہیں کرتا (یعنی ہدف و مقصد صرف خواب و خوراک ہے)۔ (اصول کافی، ج2، ص396)
ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کرتی ہیں ان کی روشنی میں بے عمل عالم اور ریا کار شخص کا شمار انہیں لوگوں میں سے ہے جو فردی اخلاقی نفاق سے دوچار ہوتے ہیں۔
اخلاقی اجتماعی نفاق کے سلسلہ میں معصومین علیہم السلام سے بہت سی احادیث صادر ہوئی ہیں، امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:ان المنافق…… ان حدثک کذبک و ان ائتمنه خانک وان غبت اغتابک وان وعدک اخلفک: منافق جب تم سے گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اگر اس کے پاس امانت رکھو تو خیانت کرتا ہے، اگر اس کی نظروں سے اوجھل رہو تو غیبت کرتا ہے، اگر تم سے وعدہ کرے تو وفا نہیں کرتا ہے۔ (المحجۃ البیضاء، ج5، ص282)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اخلاقی نفاق کی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اربع من کن فیه فهو منافق وان کانت فیه واحدة منهن کانت فیه خصله من النفاق من اذا حدّث کذب واذا وعد اخلف واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر: چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی میں پائی جائے تو وہ منافق ہے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اگر عہد و پیمان کرے تو اس پر عمل نہ کرے، جب لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو بے حیائی اور ہرزہ سرآئی کرتا ہے۔ خصال شیخ صدوق، ص254۔ امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: کثرة الوفاق نفاق: کسی شخصی کا زیادہ ہی سازگاری مزاج و طبیعت کا ہونا یہ اس کے نفاق کی علامت ہے۔ (میزان الحکمت، ج8، ص3343)
ظاہر سی بات ہے کہ صاحب ایمان ہمیشہ حق کا طرف دار ہوتا ہے اور حق کا مزاج رکھنے والا کبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ہیں سازگار نہیں ہوتا، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے، صاحب ایمان ابن الوقت نہیں ہوتا۔
اجتماعی نفاق کا واضح ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دو روئی اور دو زبان کا ہونا ہے، یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف  کرنا لیکن پس پشت مذمت و برائی کرنا۔ صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت کی پرستاری، صاحب ایمان کی صفات میں سے ہیں، صرف چند ایسے خاص مواقع میں جہاں اہم حکمت اس بات کا تقاضاکرتی ہےکہ صدق گوئی سے اعراض کیا جائے جیسے جنگ اور اس کے اسرار کی حفاظت، افراد اور لوگوں میں صلح و مصالحت وغیرہ ۔
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نوعیت کے نفاق کے انجام و نتیجہ کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: من کان له وجهان فی الدنیا کان له لسانان من نار یوم القیامة: جو شخص بھی دنیا میں دو چہرے والا ہوگا، آخرت میں اسے دو آتشی زبان دی جائے گی۔ (المحجۃ البیضاء، ج5، ص280)۔ امام حضرت محمد باقر (علیہ السلام) بھی اخلاقی نفاق کے خدو خال کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بئس العبد یکون ذاوجهین و ذالسانین یطری اخاه شاهداً و یأکله غائباً ان اعطی حسده وان ابتلی خذله:بہت بدبخت و بد سرشت ہے، وہ بندہ جو دو چہرے اور دو زبان والا ہے، اپنے دینی بھائی کے سامنے توتعریف و تمجید کرتا ہے اور اس کی غیبت میں اس کو ناسزا کہتا ہے، اگر اللہ اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا ہے تو حسدکرتا ہے، اگر کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی اہانت کرتا ہے۔ (المحجۃ البیضاء، ج5، ص282)

مرض نفاق اور اس کے آثار

نفاق،قلب اور دل کی بیماری ہے، قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ہیں، پاکیزہ قلب خداکا عرش اور اللہ کا حرم ہے۔ قلب المؤمن عرش الرحمن" (بحارالانوار، ج58، ص39 )۔ا س میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا گزر نہیں ہے، لیکن مریض و عیب دار دل، غیر خدا کی جگہ ہے ہوا و ہوس سے پر دل شیطان کا عرش ہے، قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین کو عیب دار اور مریض دل سمجھتا ہے:(فی قلوبهم مرض۔ سورہ بقرہ/ 10)
نفاق جیسی خطر ناک بیماری میں مبتلا افراد، بہت زیادہ نقصان سے دوچار ہوتے ہیں، اس لئے کہ آخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ہی میسر ہے، ہوا و ہوس سے پر، غیر خدا کا محبّ و غیر خدا سے وابستہ دل نجات کا سبب نہیں۔﴿یوم لا ینفع مال ولا بنونالا من اتی الله بقلب سلیم :اس دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گےمگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضرہو۔ سورہ شعراء/ 88 و 89 ﴾
قرآن مجید اس بیماری کی شناخت کے سلسلہ میں کچھ مفید نکات  ذکر کر رہا ہے،تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ اپنے قلب و دل کی صحت و سلامتی و نیز مرض کو تشخیص دےسکیں، نیز ان نکات کے ذریعہ معاشرےکے غیر سلیم و گمراہ قلوب کی شناسائی کرتے ہوئے ان کے مراکز فساد و فتنہ سے مبارزہ کرسکیں۔
ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ہوئی ہیں ان کو چندا نواع میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
آیات کی ایک قسم  اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتماعی روش و طرز کو بیان کرتی ہے،  آیات کی دوسری قسم منافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت و عادت کو رونما کرتی ہے،  آیات کی تیسری قسم  منافقین کی ثقافتی روش وطرز عمل کو اجاگر کرتی ہے، آیات  کی چوتھی قسم منافقین سے مبارزہ  کے طور و طریقہ کو پیش کرتی ہے۔
پہلی نوع کی آیات میں منافقین کی سیاسی و معاشرتی اسلوب، اور دوسری نوع کی آیات میں منافقین کی انفرادی و نفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ہے اور تیسری نوع کی آیات میں منافقین کی کفر و نفاق کے مرض کو وسعت دینے نیز اسلام کو تباہ و بربادکرنے کے طریقے کو بیان کیا گیا ہے، چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کردگی کو بے اثر بنانے کےطریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے، اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ میں آئی ہیں وہ ان کی اعتقادی نفاق کو بیان کرتی ہیں، مگر جو آیات منافقین کی خصوصیت و صفات کو بیان کرتی ہیں وہ ان کی منافقانہ رفتار و گفتار کو پیش کررہی ہیں خواہ اعتقادی ہوں یا نہ ہوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ہیں، منافقانہ رفتار و گفتار کی شناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں، اس کے مطابق جو فرد یا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار و روش کی حامل ہوگی اس کا شمار منافقین میں ہوگا۔
 
شبکۃ الامامین الحسنین للتراث و الفکر الاسلامی 
ماخؤذ از: http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=500