وفات حضرتِ عبد المطلب (علیہ السلام)

وفات حضرتِ عبد المطلب (علیہ السلام)

رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی ہجرت سے 45 سال قبل آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے جدِ بزرگوار جناب عبد المطلب (علیہ السلام) کی وفات ہوئی اس وقت حضرت عبد المطلب کی عمرِ مبارک 120 سال تھی جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ فقط اٹھ (8) کے تھے، مؤرخین کے مطابق جب حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی اس وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر آئے ہوئے چھ ہزار ایک سو اکھتر سال  ٰ6171 گزر چکے تھے۔
حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کی فضیلت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر جناب عبدالمطلب (علیہ السلام) تک نور محمدی اور نور علوی ساتھ ساتھ رہا اس کے بعد جناب عبد المطلب (علیہ السلام) سے یہ نور تقسیم ہوا اور نورِ محمدی حضرت عبداللہ کی ذات میں منتقل ہوا اور نور علوی حضرت ابو طالب کی ذات میں!
اس کے علاوہ انبیاء علیہم السلام کے تمام تبرکات اور امانتیں حضرت عبد المطلب (علیہ السلام) کے پاس تھیں جنہوں نے اپنا وصی حضرت ابو طالب کو بنایا اور اس کے بعد یہ تمام تبرکاتِ انبیاء اور امانتیں حضرت ابو طالب کے ذریعے رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) تک پہنچیں۔
 

جنابِ عبد المطلب (علیہ السلام) توحید پرست تھے۔

سوال یہ ہے کہ اسلام سے پہلے حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کس کی عبادت کرتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) تک رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے جتنے آباء و اجداد ہیں انھوں نے کبھی بھی بتوں کے آگے سجدہ نہیں کیا، اور نہ ہی بتوں کے نام پر کچھ قربان کیا، جب لوگ بتوں کے سامنے چڑھاوے دیتے، ان کے نام پہ قربان کرتے تو حضرت عبد المطلب اللہ کے نام پہ جانور ذبح کرتے بلکہ جاہلیت میں رسم تھی کہ بتوں کے اگے جانوروں کو قربان کیا جاتا اور انہی کے نام پہ کھلایا جاتا لیکن جب کبھی بھی یہ ذبیحہ حضرت عبدالمطلب کے سامنے پیش کیا جاتا تو فرماتے انّي على دينِ أبي ابراهيمَ مُقيم میں اپنے جد حضرتِ ابراہیم کے دین پر ثابت قدم ہوں۔
امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"وَ اللَّهِ مَا عَبَدَ أَبِي وَ لا جَدِّي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وَ لا هَاشِمٌ وَ لا عَبْدُ مَنَافٍ صَنَماً قَطُّ قِيلَ لَهُ فَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالَ كَانُوا يُصَلُّونَ إِلَى الْبَيْتِ عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مُتَمَسِّكِينَ بِهِ۔[1]
قسم بخدا میرے آباء و اجداد میں سے کسی نے بھی کبھی بھی بتوں کے اگے سجدہ نہیں کیا، نہ میرے بابا ابو طالب نے نہ میرے جد عبدالمطلب نے نہ حضرت ہاشم نے نہ ان کے بابا جناب عبدالمناف نے، سوال کیا گیا کہ پھر کس کی عبادت کرتے تھے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے دین ابراہیم پر تھے اور اسی دین پر ثابت قدم تھے۔
اس کے علاوہ جناب عبدالمطلب انبیاء علیہم السلام سے جو علم ورثے میں ملا تھا اس علم سے جانتے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) اللہ کے آخری رسول ہیں۔
واضح رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے والد گرامی جناب عبداللہ کا انتقال اپ کی ولادت سے پہلے ہی ہو چکا تھا لہذا رسول کی پرورش اور حفاظت کی عظیم ذمہ داری جناب عبدالمطلب کی کاندھے پر تھی ہمیشہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کا احترام کرتے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے، جناب عبدالمطلب کی عظمت کو دیکھتے ہوئے لوگ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) سے احترام سے پیش آتے، احضرت عبدالمطلب رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی حفاظت کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتے یہاں تک کہ تاریخ میں ملا کہ جب حضرت عبدالمطلب کی وفات کا وقت ایا تو سب سے زیادہ پریشان رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے حوالے سے تھے لہذا حضرت ابو طالب کو بلایا اور انہیں وصیت کی کہ دیکھو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کا خیال رکھنا: اوصاه برعايه محمد صلى الله عليه وآله مشددا عليه ان يحافظ عليه وينصره باليد والمال واللسان۔
صرف وصیت کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تاکید فرمائی کہ ہمیشہ محمد کی حفاظت کریں گے اپنی جان سے اپنے مال سے اپنی زبان سے ان کی مدد کرتے رہیں گے۔
اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے جناب ابو طالب کا ہاتھ تھاما اور عہد، جناب ابو طالب نے جب قبول کیا تو اس کے بعد حضرت عبدالمطلب کو سکون ہوا اور فرمایا: "الان يهون علي الموت"۔ اب مجھ پر موت اسان ہو جائے گی، اس کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو نزدیک بلایا سینے سے لگایا اور بلند آواز سے گریا کرنے لگے پھر اس ہی حال میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
یہ عشق رسول کی بہت بڑی مثال ہے جو حضرت عبدالمطلب نے قائم کی نہ صرف پرورش کی بلکہ بہترین طریقے سے حفاظت بھی کی اور معرفتِ رسول سرشار تھے اس ہی وجہ سے حضرت ابو طالب کے حوالے کر کے گئے تو اللہ نے یہ اجر عطا کیا کہ حدیث میں ملا، "يُبْعَثُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ أُمَّةً وَحْدَهُ عَلَيْهِ بَهَاءُ الْمُلُوكِ وَ سِيمَاءُ  الْأَنْبِيَاء"۔
حضرت عبدالمطلب قیامت میں ایک امت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے بادشاہوں جیسا لباس، اور انبیاء علیہم السّلام جیسی علامات ہوں گی۔[2]


[1] کمال الدين و تمام النعمة ج ۱، ص ۱۷۴
[2] الکافي ج ۱، ص ۴۴۷