تاریخ کے عظیم اور سچے حکما میں سے ایک حضرت لقمان (علیہ السلام )ہے کہ جس کا نام قرآن مجید میں دو مرتبہ بہت ہی عظمت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔([1])
اور قرآن مجید کی اکیسویں سورہ اسی کے نام سے آئی ہے ۔ خدا وند متعال نے قرآن مجید میں اس کو اس ليے یاد کیا ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت ہی اہم دس نصیحتیں کی ہیں جن کو سورہ لقمان میں پانچ آیتوں کےضمن میں بیان فرمایا ہے ۔([2])
حضرت لقمان کی یاد اور ان کی دس نصیحتوں کو قرآن میں بیان کرنا اور قرآن کا ایک مکمل سورہ ان کے نام پر ہونا اور وہ بھی ایسی کتاب میں جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ خداوند عالم یہ چاہتا ہے کہ لقمان کا نام اور ان کی وہ حکیمانہ باتیں نصیحتوں کے طور پر قرآن میں ثبت کردے تاکہ ہر زمانے میں اور ہر دور میں حق او رعرفان کے عاشقوں کے ليے ایک نمونہ عمل اورہدایت قرار پائے اور لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی بنا پر یہاں پر سب سے پہلا سوال یہ پیش آتا ہے کہ یہ لقمان کون تھے؟ کہاں پر رہےتھے ؟ اور کس زمانے میں زندگی کزار رہے تھے ؟ کیا وہ کوئی پیغمبر تھے یا نہیں؟ ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے ليے ہم درجہ ذیل مطالب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائیں گے۔ 1۔ اس کا نام لقمان اور اس كي کنیت ابو الاسود تھا ۔ وہ سرزمین سوڈان سے تھے جو افریقہ میں نوبہ نامی ایک شہر میں متولد ہوئے ۔
وہ رنگ کے اعتبار سے گندمی اور تقریبا کالے رنگ کا تھا اور مورخين نے اس کو سیاہ رنگ اور بلند قامت والا جانا ہے۔
پس وہ افریقی نسل کا تھا لیکن بعض نے اس کو سرزمین فلسطین میں دریا کے کنارے (ایلہ ) نام کے ایک شہر سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔([3])
اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ حضرت لقمان کی عمر بہت ہی طولانی تھی اس نے بہت سارے پیغمبروں کے ساتھ زندگی کی ہے حتی بعض روایات کے مطابق چار سو پیغمبروں کے ساتھ اس نے ملاقات کی ہے۔([4])
اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہےکہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے اور ظاہر بھی یہی ہوتا ہے۔
بعض کے عقیدے کے مطابق حضرت داؤد کی حکومت سے کئی سال پہلے اور بعض کے مطابق حضرت داؤد کی حکومت کے دس سال بعد میں لقمان کی ولادت ہوئی ہے اور اس کی عمر حضرت یونس کے پیغمبر بننے تک جاری رہی۔
حضرت داؤد کی حکومت کے دوران جالوت کے ساتھ جنگ کرنے میں لقمان نے شرکت کی اور جالوت کو قتل کرنے میں شریک ہوئے ۔
حضرت لقمان کے نسب کے بارے میں اس طرح سے لکھا گیا ہے کہ :
(لقمان بن عنقی بن مزید بن صارون) اور بعض نے ان کو حضرت ایوب( علیہ السلام) کا خالہ زاد یا خواہر زاد قرار دیا ہے اور اس کے سلسلہ نسب میں ( ناحور بن تارخ ) کو جو کہ حضرت ابراہیم کے بھائی تھے بیان کیا ہے۔
اس کی عمر بہت ہی طولانی تھی تقریبا دوسو سال سے پانچ سو ساٹھ سال تک اور اسی طرح سے ایک ہزار سے تین ہزار پانچ سو سال تک لکھی گئی ہے ۔
حضرت لقمان بہت ہی زاہد تھا اس کے نزدیک اس دنیا کی مثال ایک سایہ جیسی تھی۔
وہ کچھ عرصے تک بنی اسرائیل کے ثروتمندترین شخص ( قین بن حسر ) کا غلام رہا اور اس کے ليے چوپانی کرتا رہا لیکن لقمان کی حکیمانہ باتوں سے متاثر ہو کر اس نے لقمان کو آزاد کر دی۔([5])([6])
لگتا ہے حضرت سلیمان نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ فلسطین بیت المقدس میں گزارا ہے اور ان کی قبر مبارک بھی فلسطین کے کسی ساحل ( ایلہ ) کے مقام پر واقع ہے۔
کہتے ہیں کہ ان کی بہت ساری اولاد تھی ان سب کو اپنے ارد گرد جمع کرکے ان کو نصیحتیں کرتے تھے اور بعض کے کہنے کے مطابق وہ ( یا بنی ! ) اے میرے بیٹے کہہ کر اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہوتے تھے لیکن حقیقت میں وہ اپنے سارے بیٹوں کو مخاطب قرار دیتے تھے بلکہ تمام انسانوں کو مخاطب قرار دیتے تھے۔
وہ اپنی اس محبت آمیز تعبیر سے ان کی محبت کو جلب کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کو یہ سمجھائیں کہ میں آپ کے ليے دلسوز اور مہربان ہوں اور میری ان دلسوز نصیحتوں کو اپنی اچھائی کے خاطر قبول کریں۔ ([7])
جیسا کہ یہی طریقہ امام علی علیہ السلام کی اپنے بیٹے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو کی ہوئی نصیحتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ([8])
استادمحقق آیت اللہ جوادی آملی لکھتا ہے کہ : لفظ ابن کا تصغیر بُنّی کی صورت میں ہونا ان کی دلجوئی اور اپنی محبت کی اظہار کے ليے ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام کا کا وہ خط جو اپنے بیٹے امام حسن کو لکھا ( نہج البلاغہ مکتوب 31 ) میں دیکھا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے کس عاطفہ اور مہربانی کے ساتھ ان کی راہنمائی کی ہے اسی بنا پر ایسی فائدہ مند باتیں اور نصیحتیں کہ جن میں عطوفت اور رحمت موجود ہو وہ صرف امام علی اور حضرت لقمان کی باتوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔([9])
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں حضرت لقمان کی بعض نصیحتوں کے بارے میں ذکر ہوا ہے اگرچہ راوایات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی بہت ساری نصیحتیں موجود ہیں اگر ان سب نصیحتوں کو ہم جمع کرنا چاہیں تو بہت ساری کتابیں بن جائیں گی ۔ لیکن پھر بھی حضرت لقمان کواچھی طرح سے پہچاننے کے لئے ایک حدیث کی طرف آپکی توجہ مبذول کرائیں گے۔
وہ اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں : (يا بُنَيَ إِنِّي خَدِمتُ أَرْبَعَمِأَةِ نبي وَ أَخَذْتُ مِنْ كَلَامِهِم أَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، و هى : اذا كُنتَ فى الصلوه فاحفظ قلبَك, و اذا كُنتَ على المائده فاحفظ حلقَكَ،و اذا كُنتَ فى بيت الغير فاحفظ عَينَكَ، واذا كُنتَ بين الخَلقِ فاحفظ لِسَانَكَ) :
اے بیٹے میں نے چار سو پیغمبروں کی خدمت کی ہے اور ان کے گفتار سے چار چیزوں کو لیا ہے ۔ 1۔ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں تو حضور قلب کا خیار رکھو۔ 2۔ جب دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو حرام مال کھانے سے پرہیز کرو۔ 3۔ جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو اپنی آنکھوں کو نامحرم سے محفوظ رکھو۔ 4۔ اور جب انسانوں کے اندر رہو تو اپنی زبان کی حفاظت کرو۔ ([10])
حضرت لقمان کی خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے بہت سارے سفر کئے اور مختلف لوگوں کے ساتھ رہے جیسا کہ علما، فقہا وغیرہ کے ساتھ ان کا رہنا سہنا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بہت سارا تجربہ کسب کیا ہے اس حد تک مولانا جلال الدین کے اس شعر کا مصداق بن گئے:
حاصل عمرم سه سخن پیش نیست
خام بدم پخته شدم سوختم
یعنی میری کل زندگی کا نتیجہ تین کلمات سے زیادہ نہیں ہے ۔ پہلے خام تھا پھر پک گیا اور جل گیا۔
حکمت اصل میں ( حکم ) کے مادہ سے ہے جو حرف کے وزن پر ہے جس کا معنی منع کرنا ہے کیونکہ یہ علم اور تدبیر جو کہ حکمت کے معانی میں سے ہیں انسان کو خلاف کاموں سے منع کرتی ہیں ان کو حکمت کہا جاتا ہے۔
حکمت کے بہت سارے معانی بیان ہوئے ہیں جس کامفہوم بہت ہی وسیع ہے اور انہی میں سے ایک معرفت ہے اور اس جہان کے اسرار کی شناخت حاصل کرنا ہے اور حقائق سے آگاہی اور گفتار و عمل کے اعتبار سے حق تک پہنچنا اور خدا کو پہچاننا ہے۔
اور اسی طرح سے نور الہی کے معنی میں ہے جو انسان کو شیطان کے وسوسوں اور گمراہی سے بچاتا ہے۔
اور درس فلسفہ کو حکمت کہا جاتا ہے وہ اس ليے کہا جاتا ہے کہ یہ علم حکمت کا ایک شعبہ حساب ہوتا ہے اور انسان کو حکمت کی راہ میں قرار دے سکتا ہے۔
کلی طور پر حکمت کی دو قسمیں ہیں :
1۔ حکمت نظری : جو تمام چیزوں کے بارے میں عمیق اور وسیع آگاہی رکھنا ہے۔
2۔ حکمت عملی : جو ایک معنوی حالت اور باطنی نور ہے جو انسان کو بلند مقام تک پہنچاتا ہے۔
اس قسم کے بندے کو حکیم نام دیا ہے حکیم ایسے بندے کو کہا جاتا ہے جو عاقل اور ہوشیار اور مدبر ہو اور فکر و عمل کے اعتبار سے پاک اور خالص ہو۔
خدا وند عالم حکیم مطلق ہے قرآن مجید میں خدا کی پاک ذات کو (97) مرتبہ حکیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور لفظ حکمت قرآن مجید میں (20) مرتبہ ذکر ہوا ہے اور تمام انبیا کے نزول کا مقصد و ہدف اسی حکمت کی تعلیم دینا بیان ہوا ہے۔([11])
قرآن مجید کی نظر میں اس حکمت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ خداوند متعال نے اس زمین کو اتنی وسعت کے باوجود اس کو بہت ہی کم اور ایک دہوکہ کا نام دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ (قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ) ([12]) یعنی زندگی کا سرمایہ بہت ہی کم ہے۔
اور اسی طرح سے فرماتے ہیں کہ (وَ مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَعُ الْغُرُور)([13]) یعنی یہ دنیا کی زندگی صرف ایک دهوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس حکمت کے بارےمیں کہہ رہے ہیں کہ (..يُؤْتىِ الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَ مَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتىَِ خَيرْا كَثِيرًا )([14]) وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیرکثیر دیا گیا ہے۔
اور امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ (...الْحِكْمَةِ الَّتِي هِيَ حَيَاةٌ لِلْقَلْبِ الْمَيِّتِ)([15]) حکمت مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے اور امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ ( أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ ..، ونَوِّرْه بالحِكْمَة ،([16]) اپنے دل کو موعظہ کے ذریعے سے زندہ رکھو اور حکمت کے نور سے اسے جلا بخش دو ۔
اور حکمت کی اہمیت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ فرمایا : (الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ)([17])
حکمت مؤمن کا گمشدہ مال ہے اگرچہ وہ منافق کے پاس ہی کیوں نہ ہو اس کو حاصل کرنا چاہیے ۔
اسی طرح سے کسی اور تعبیر کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ (إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْأَبْدَانُ فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ([18]) انسان کا دل اس کے جسم کی طرح سے سست اور تھکا ہوا ہوتا ہے اس کو خوش حال کرنے کے لئے نیک حکمتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
حکمت کا معنی اور اس کے آثار کے بارے میں ہم حضرت عیسی کی نصیحتوں میں پڑ ھتے ہیں کہ : بِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ إِنَ النَّفْسَ نُورُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِنَّ الْحِكْمَةَ نُورُ كُلِّ قَلْبٍ وَ التَّقْوَى رَأْسُ كُلِّ حِكْمَة: حقیقت میں آپ کو بتادوں کہ ہر چیز کی روشنی نفس کے ذریعے سے ہوتی ہے اور حکمت هر دل كا نور ہے اور پرہیز گاری ہر حکمت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
اور اسی طرح سے فرماتا ہے کہ: ( بِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ إِنَ الصَّقَالَةَ تُصْلِحُ السَّيْفَ وَ تَجْلُوهُ كَذَلِكَ الْحِكْمَةُ لِلْقَلْبِ تَصْقُلُهُ وَ تَجْلُوهُ وَ هِيَ فِي قَلْبِ الْحَكِيمِ مِثْلُ الْمَاءِ فِي الْأَرْضِ الْمَيْتَةِ تُحْيِي قَلْبَهُ كَمَا يُحْيِي الْمَاءُ الْأَرْضَ الْمَيْتَةَ وَ هِيَ فِي قَلْبِ الْحَكِيمِ مِثْلُ النُّورِ فِي الظُّلْمَةِ يَمْشِي بِهَا فِي النَّاس;
اور حقیقت میں آپ کو بتادوں کہ تلوار کو صیقل لگانا یا اس کو تیز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو جلا بخش دے اسی طرح سے حکمت بھی انسان کے دلوں کو جلا بخشتی ہے ۔
انسان کے دل میں حکمت کا ہونا بنجر زمین کو پانی دینے کی مانند ہے انسان کے دل کو زندگی دیتی ہے جس طرح سے پانی بنجر زمین کو زندہ کرنا ہے اور اسی طرح سے ایک نور کی طرح سے ہے جو رات کی تاریکی میں انسان اپنے ساتھ لیکر چلتا ہے ۔[19]
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس حکمت کے آثار کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
(يَا بُنَيَّ تَعَلَّمِ الْحِكْمَةَ تُشَرَّفْ فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَدُلُّ عَلَى الدِّينِ وَ تُشَرِّفُ الْعَبْدَ عَلَى الْحُرِّ وَ تَرْفَعُ الْمِسْكِينَ عَلَى الْغَنِيِ وَ تُقَدِّمُ الصَّغِيرَ عَلَى الْكَبِيرِ وَ تَجْلِسُ الْمِسْكِينَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ وَ تَزِيدُ الشَّرِيفَ شَرَفاً وَ السَّيِّدَ سُؤْدَداً وَ الْغَنِيَّ مَجْدا..)
اے میرے بیٹے حکمت کی تعلیم حاصل کرو تاکہ شرافت کے بلند ترین درجہ پر پہنچ سکو چونکہ حکمت دین کی طرف رہنمائی کرتي ہے اور غلام کو آزاد پر شرافت بخشتی ہے اور فقیر کو دولتمند اور امیر سے زیادہ ارجمند بناتي ہے چھوٹے کو بڑے پر مقدم کرتي ہے اور فقیروں کو بادشاہوں کی جگہ عطا کرتي ہے اور انسان کی شرافت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
انسان کی زندگی اور دین دونو ں ہی اس حکمت کے علاوہ ممکن نہیں ہیں اور دنیا و آخرت کا کام صرف اسی حکمت پر موقوف ہے جس طرح سے خدا کی اطاعت کسی حکمت کے بغیر ہو تو بغیر روح والے جسم کی طرح ہوگی یا بغیر پانی والی زمین کی طرح سے ہے ۔
بس جس طرح سے جسم بغیر روح کے اور زمین پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی ہے اسی طرح سے حکمت کے بغیر خدا کی اطاعت بھی بے نشاط ہوگی ۔ ([20])
سورہ لقمان کی آیت 21 میں ہم پڑھتے ہیں کہ : ( وَ لَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَانَ الحْكْمَةَ ) ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ہے ۔
یہ آیت اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ وہ خدا وند عالم جو حکیم مطلق ہے حضرت لقمان کے حکیم ہونے کو قبول کرتا ہے اور اس کو حکمت سے بہرہ مندکیا ہے ۔
اور یہ کہ حضرت لقمان پیغمبر تھے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں قرآن مجید سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے اور روایات میں بھی ان کے پیغمبر ہونے کی نفی ہوئی ہے ان میں سے جو روایت پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہے کہ فرمایا : (حَقّاً أَقُولُ لَمْ يَكُنْ لُقْمَانُ نَبِيّاً وَ لَكِنَّهُ كَانَ عَبْداً كَثِيرَ التَّفَكُّرِ حَسَنَ الْيَقِينِ أَحَبَّ اللَّهَ فَأَحَبَّهُ وَ مَنَّ عَلَيْهِ بِالْحِكْمَة)([21])
حقیقت میں بتادوں کہ حضرت لقمان کوئی پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ زیادہ فکر کرنے والے انسان تھے خدا پر اس کا ایمان اور یقین کامل تھا خدا کو دوست رکھتا تھا اور خداوند عالم بھی اس کو دوست رکھتا تھا اور خدا وندعالم نے ان کو حکمت جیسی نعمت سے نوازا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ کوئی پیغمبر نہیں تھے کس طرح سے وہ حکمت کے اس بلند ترین درجے پر پہنچ گئے؟
کہ خداوند متعال نے ان کی بعض حکمتوں کو نصیحت کے طور پر قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت لقمان ایک پاک اور مخلص انسان تھے سیر و سلوک اور عرفان کے راستے میں اس نے بہت ہی زحمت اٹھائی ہے اور اسی طرح ہوائے نفس کی مخالفت اور بہت ساری مشکلات کو تحمل کرنے کی وجہ سے خدا وند عالم نے ان کے دل میں حکمت کے چشمے پھوٹ دئیے اور لقمان کی یہی قابلیت خداوندعالم کا لطف قرار پائی ۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : (مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً إِلَّا جَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِه)([22]) جو بھی خدا کی خاطر اگر چالیس دن تک اخلاص پیدا کریں تو خداوند عالم ان کے دل اور زبان حکمت جاری کرتا ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ کسی نے حضرت لقمان سے پوچھا آپ نے یہ علم اور حکمت کہاں سے حاصل کی ہے ؟ جبکہ آپ نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا ؟ تو حضرت لقمان نے فرمایا ۔(قَدرُ اللَّه و أداءِ الأمانَة و صدقِ الحَديثِ،و الصمت) ([23]) اللہ کی تقدیر اور امانت داری اور سچائی اور اپنی زبان پر کنٹرول کرنے سے یہ مقام حاصل ہوا ہے۔
حضرت لقمان کو حکمت عطا ہونے کے راز کو امام صادق علیہ السلام اس طرح سے بیان کرتے ہیں خدا کی قسم جو حکمت لقمان کو عطا ہوئی ہے وہ نہ ہی اس کی جمال و خوبصورتی کیوجہ سےتھی اور نہ ہی ان کے حسب ونسب اور مال و دولت کی وجہ سے بلکہ وہ پاک اور پرہیز گار انسان تھے جو ہمیشہ خدا کے حکم کی اطاعت کرتے تھے اور ہمیشہ اپنی زبان پر کنٹرول کرتے تھے اور بہت زیادہ فکر کرنے والے تھے۔
اور بعض موارد کے علاوہ کبھی سوتے نہیں تھے کسی مجلس میں لوگوں کے سامنے کبھی ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے اور قضاے حاجت کے وقت ایسی جگہ نہیں بیٹھتے تھے جہاں پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے ۔ وہ بہت ہی باوقار انسان تھے ،کبھی بے جا ہنستے نہیں تھے اور کبھی بھی غصہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کبھی مذاق کرتے تھے اور دنیوی امور میں کبھی خوشحال یا غمگین نہیں ہوتے تھے۔ حضرت لقمان کی کئی بیویاں تھیں جن سے بہت زیادہ اولاد تھے ان میں سے بہت سارے مر گئے تو حضرت لقمان خدا کی خوشنودی کے خاطر ان کے موت پر کبھی روئے نہیں۔
اور جب دو بندوں کے درمیان لڑائی ہوتی تو ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتے تھے اور جب تک ان کے درمیان صلح نہیں ہوتی ان کو چھوڑ تے نہیں تھے ۔ جب کسی سے کوئی اچھی بات سنتے تھے تو اس کی تفسیر اور منبع و ماخذ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ علماء اور فقہاء کے ساتھ زیادہ بیٹھا کرتے تھے جو بھی اس کے معنوی فائدہ کے لئے ہوتا تھا اس پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ بے ہودہ کاموں سے بیزار تھے اسی وجہ سے خداوند متعال نے ان کو حکمت جیسی خصلت سے نوازا۔ ([24])
انہی مطالب اور دوسرے مطالب سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمان اگرچہ نسل اور قوم کے اعتبار سے بہت ہی کم درجے پر تھے لیکن علم و عمل اور ریاضت اور کمال کے مراحل کو طی کرنے میں بہت بڑے مقام حکمت تک پہنچ گئے مثال کے طور پر سلمان ایک عجمی تھے لیکن خود سازی اور ریاضت کے اعتبار سے تکامل تک پہنچ چکے تھے جس کیوجہ سے امام علی علیہ السلام نے ان کو لقمان کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور اس کی شان میں فرمایا : (قَالَ بَخٍ بَخٍ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ مَنْ لَكُمْ بِمِثْلِ لُقْمَانَ الْحَكِيمِ عَلِمَ عِلْمَ الْأَوَّلِ وَ عِلْمَ الْآخِر)([25])
مبارك ہو مبارك ہو سلمان کا کیسا مقام ہے وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں آپ کہاں سے سلمان کے درجے پر پہنچ پاوگے وہ لقمان حکیم کی طرح ہے جو گزشتہ اور آئندہ کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔
لقمان کی زبان سے حکمت کا جاری ہونا:
پیغمبر اسلام کی روایت ہے کہ فرمایا ایک دن حضرت لقمان بستر پر آرام فرما رہے تھے ۔ اچانک کوئی آواز سنی جو اس کو مخاطب قرار دے کر کہہ رہی تھی اے لقمان کیا آپ چاہتے ہو کہ خداوند متعال آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ بنائے تاکہ لوگوں کے درمیان حق کی قضاوت کرو؟
تو لقمان نے کہا اگر میرا پرودگار اس حکم پر مجھے اختیار دے دیں تو میں اس قضاوت کے امتحان کو کبھی قبول نہیں کرونگا لیکن اگر میرا خدا اس کام پر مجھے حکم دے تو میں ان کے حکم کی اطاعت کرونگا چونکہ مجھے معلوم ہے کہ اگر ایسی ذمہ داری مجھے دی ہے تو وہ ضرور میری مدد کرے گا۔
اور فرشتے نے جبکہ لقمان ان کو نہیں دیکھ رہے تھے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں اس قضاوت کو قبول نہیں کرتے ہیں؟ تو لقمان نے جواب دیا اگرچہ لوگوں کے درمیان قضاوت کرنا بہت ہی ضروری بھی ہے اور سخت بھی ہے چونکہ ہر طرف سے ظلم و ستم اور لغزشوں کے امواج اسی کی طرف متوجہ ہوتی ہیں ۔ اگر خدا وند عالم انسان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے تو لوگ نجات پائیں گے وگرنہ انہی لغزشوں کے امواج میں غرق ہونے کا امکان ہے ۔ بس کل قیامت کے دن انسان کے ذلیل وخوار ہونے سے بہتر ہے کہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہو جائے اور جو بھی اس دنیا کو آخرت پر ترجیح دے تو وہ کبھی بھی اس دنیا کو حاصل نہیں کرسکے گا اور اس کی آخرت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔
فرشتے لقمان کی ان حکیمانہ اور منطقی باتوں سے متعجب ہوئے اس کے بعد لقمان کو نیند آگئی خداوند متعال نے لقمان کے دل میں حکمت کا نور ڈال دیا اور جب وہ نیند سے اٹھے تو ان کی زبان پر حکمت جاری ہونے لگی۔
لقمان اگرچہ حضرت داؤد کے مشکلات میں مددگار تھے حضرت داؤد ان کو کہنے لگے طُوبَى لَكَ يَا لُقْمَانُ أُعْطِيتَ الْحِكْمَة) ([26]) اے لقمان آپ کتنے خوش قسمت ہو کہ خدا نے آپ کو حکمت عطا کی ہے۔
[2] سوره لقمان, آيات 13 و 16 و 17 و 18 و 19. (اور آيت( 14 و 15 )خداکا کلام ہے اور یہ مطلب لقمان کی حکمت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے خداوند عالم نے اپنے کلام کو ان کے کلام کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
[8] اس کے بارے میں نہج البلاغہ کی طرف رجوع کریں امام علی کی کلام میں سولہ مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ان میں سے تیرہ مرتبہ امام حسن کو لکھے ہوئے نامہ 31 نہج البلاغہ میں ذکر ہواہے ۔, اور اسی طرح سے بحار, ج77, ص238 تا 241, اميرمومنان على(ع) کی وہ وصیت جو امام حسين(ع) کو کی ہے اس کی طرف رجوع کریں کہ جس میں , حضرت على(ع) نے امام حسين(ع) کو مخاطب قرار دیتے ہوئے تقریبا سترہ مرتبہ (يا بنى) کا جملہ استعمال کیا ہے , اصل میں یہ وصیت نامہ تحف العقول, ص88 میں ذکر ہوا ہے ۔